تشریح:
(1) اہل لغت اور اہل فقہ کے نزدیک قربانی کے دن، یعنی دسویں ذوالحجہ کے بعد ایام تشریق شروع ہوتے ہیں، لیکن تشریق کی وجہ تسمیہ کا تقاضا ہے کہ دسویں ذوالحجہ کو ایام تشریق میں شامل کیا جائے کیونکہ اس کی وجہ تسمیہ کے متعلق تین اقوال ہیں: ٭ گوشت کاٹ کر دھوپ میں ڈالا جاتا تھا تاکہ وہ خشک ہو جائے۔ ٭ نماز عید دن چڑھے پڑھتے تھے، اس لیے اس تشریق کہا جاتا ہے۔ ٭ دور جاہلیت میں مشرکین کہتے تھے کہ اے سورج! جلدی طلوع ہو تاکہ ہم قربانی کریں۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل یوم تشریق تو عید کا دن ہے اور باقی دنوں کو اس کی ماتحتی میں ایام تشریق میں شامل کیا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کے نزدیک اس روایت میں ایام سے مراد ایام تشریق ہیں اور ان دنوں کے عمل سے مراد اللہ أکبر کہنا اور ذکر الٰہی کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے تکبیرات کہنے کے متعلق مختلف آثار کا حوالہ دیا ہے۔ لیکن دیگر صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام سے مراد ایام عشر ہیں، تو بھی مطابقت اس طرح ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک دسویں تاریخ ایام تشریق سے ہے، اس لیے ایک دن کے اعتبار سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔ (3) حافظ ابن حجرؒ نے عنوان سے مطابقت کے لیے ایک دوسرا پہلو اختیار کیا ہے کہ ذوالحجہ کے دس دنوں کی فضیلت اس اعتبار سے ہے کہ ان میں افعال حج ادا ہوتے ہیں اور کچھ افعال حج ایام تشریق میں ادا کیے جاتے ہیں، اس لیے اصل فضیلت میں ایام تشریق، ایام عشر کے ساتھ اشتراک رکھتے ہیں، پھر ایام عشر کا خاتمہ ایام تشریق کا افتتاحیہ ہے، اس بنا پر ان ایام کی فضیلت ہے اور یہی امام بخاری ؒ کا مقصود ہے۔ (فتح الباري:592/2)