تشریح:
(1) حائضہ عورت کو نماز کی ممانعت ہے۔ اس اعتبار سے اس کے لیے مسجد میں جانا بھی ناجائز ہے، تو اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایسی عورت کے لیے عیدگاہ میں جانا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اسی اعتراض کا جواب دیا ہے کہ اس میں متعدد فوائد ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ شوکت اسلام کا اظہار ہے، اس لیے ایسی عورتوں کو بھی عیدگاہ جانا چاہیے۔ اس پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں عیدگاہ کا تقدس تو مجروح ہو گا۔ اس کا جواب ایک دوسری روایت میں ہے کہ راوی نے جب یہ اعتراض کیا تو اسے جواب دیا گیا کہ حائضہ عورت منیٰ، عرفہ اور مزدلفہ وغیرہ مقدس مقامات میں دوران حج جا سکتی ہے تو عیدگاہ جانے کے لیے اسے کیا ممانعت ہے۔ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث:324)
(2) عیدگاہ میں اس قسم کی عورتوں کو الگ بیٹھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ نماز پڑھنے والی عورتوں کے درمیان بے ضابطگی نہ ہو۔ کچھ پڑھیں اور کچھ ویسے ہی بیٹھی رہیں اس سے نماز کا ظاہری حسن مجروح ہوتا ہے، اس لیے انہیں علیحدہ بیٹھنے کا حکم دیا گیا ہے، نیز اس میں دوسری عورتوں اور مقدس جگہ کا بھی خیال رکھا گیا ہے تاکہ وہ مقام نجاست سے آلودہ نہ ہو جائے جہاں نماز پڑھنی ہے یا ساتھ والی عورت کو کراہت نہ ہو۔ (عمدةالقاري:193/5)