تشریح:
1۔ مرد گھر کا نگران ہونے کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا ذمے دار ہے لیکن اس کے باوجود تعلیم نسواں کے متعلق امام کی ذمے داری ختم نہیں ہو جاتی کیونکہ اول تو ہر شخص اصول تعلیم سے واقف نہیں ہو تا۔ اگر وہ تعلیم یافتہ ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ عورتوں کی تعلیم کے لیے کن کن باتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے امام کو چاہیے کہ عورتوں کی تعلیم کے لیے علیحدہ درسگاہ کا اہتمام کرے۔ ان کی ضرورت کے پیش نظر نصاب تعلیم مرتب کرے پھر اس نصاب کو پڑھانے کے لیے قابل اساتذہ کا اہتمام کرے۔ عورتوں کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ چادر و چار دیواری کے تحفظ کا پورا اہتمام ہو اور مردوں کا داخلہ ممنوع ہو۔ نیز تعلیم مخلوط نہ ہو کیونکہ مخلوط تعلیم میں فتنہ و فساد کے اتنے دروازے کھلتے ہیں کہ تعلیم کا مفاد اس کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو وعظ فرمایا: جس کی تفصیل دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں نے تمھاری اکثریت باہمی لعن طعن اور کفران عشیر کی وجہ سے جہنم میں دیکھی ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کثرت سے کیا کرو۔‘‘ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 29)
4۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات کے لیے شوق دلانا اور سفارش کرنا بڑے ثواب کا کام ہے نیز عورتوں کے لیے انگوٹھی، چھلا، ہار، گلو بند اور بالیاں وغیرہ پہننے کا جواز ہے۔
5۔ آج کل چونکہ لاؤڈ سپیکر لگے ہوئے ہیں۔ امام کے وعظ و نصیحت کو مرد عورتیں برابر سنتے ہیں اس لیے مستقل طور پر عورتوں کے پاس آنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
6۔ اس حدیث سے عورتوں کا عید گاہ جانا بھی ثابت ہوا لیکن پردے اور سادگی کے احکام کے ساتھ جانا چاہیے نمودو نمائش سے ثواب ضائع اور گناہ لازم ہو جاتا ہے۔ جو حضرات اس سنت (عورتوں کے عیدگاہ جانے) کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔