تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں سوالیہ انداز اختیار کیا ہے، جزم اور وثوق کے ساتھ اس کا جواب ذکر نہیں کیا۔ زین بن منیر کہتے ہیں کہ حدیث میں اس کی وضاحت تھی، اس لیے امام بخاری ؒ نے صراحت کے ساتھ جواب ذکر نہیں فرمایا۔ لیکن ہمارے نزدیک چونکہ جواب میں متعدد احتمالات تھے، اس لیے امام بخاری ؒ نے حسب عادت جواب کو حذف کر دیا ہے۔ یہ بھی احتمال تھا کہ وہ اپنی سہیلی کی چادروں میں سے کوئی چادر بطور ادھار لے لے جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں ہے۔ اور امام ترمذی ؒ نے بیان کیا ہے کہ وہ اپنی سہیلی سے عاریتاً کوئی چادر لے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی سہیلی اپنی چادر میں چھپا کر لے جائے جیسا کہ ابوداود کی روایت میں ہے: ’’اس کی سہیلی کو چاہیے کہ وہ اپنی چادر کے ایک کنارے میں اسے چھپا کر لے جائے۔‘‘ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد بطور مبالغہ فرمایا ہو کہ انہیں بہر صورت عیدگاہ جانا چاہیے۔ اگرچہ ایک چادر، دو عورتیں لپیٹ کر ہی کیوں نہ جائیں۔ (فتح الباري:605/2)
(2) عیدگاہ میں حائضہ عورتوں کی حاضری کو عجیب سمجھا جا رہا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ حضرت ام عطیہ ؓ نے وضاحت فرمائی کہ کیا عورتیں حج کے موقع پر میدان عرفات، مزدلفہ اور رمی جمرات کے لیے منیٰ میں حاضر نہیں ہوتیں؟ مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو ذکر کرنے سے نہ روکا جائے اور نہ انہیں مسجد کے علاوہ دیگر مقدس مقامات ہی میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ اگر وہ عیدگاہ میں جمع ہو کر اللہ کا ذکر کریں، وعظ و نصیحت سنیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ انہیں صرف دخول مسجد اور نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔ اور عیدگاہ مسجد نہیں ہے، نیز وہاں جانے پر ان پر نماز پڑھنا ضروری نہیں، لہذا شوکتِ اسلام کے اظہار کے لیے ان کی عید میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔