تشریح:
(1) ان احادیث کی عنوان سے مطابقت کے متعلق ابن منیر نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے ''إنها أيام عيد " ’’یہ عید کے دن ہیں‘‘ سے استدلال کیا ہے کیونکہ ان الفاظ میں مطلق طور پر عید کی نسبت دنوں کی طرف ہے، اس لیے نماز عید کی اقامت کے لیے منفرد، جماعت، عورتیں اور مرد سب برابر ہیں۔ پھر ابن رشید نے ابن منیر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ایام عید اہل اسلام کے لیے ہیں۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ اے اہل اسلام! یہ ہماری عید کے دن ہیں۔ اہل اسلام کے الفاظ منفرد اور جماعت سب کو شامل ہیں، البتہ نماز عید کی قضا کے لیے امام بخاری کا استدلال، ایام منیٰ سب عید کے دن ہیں، سے ہے۔ جب ان ایام کو ایام عید کہا گیا ہے تو یہ دن نماز عید کی ادائیگی کے لیے محل قرار پاتے ہیں کیونکہ اس نماز کی مشروعیت یوم عید کی بنا پر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایام منیٰ کے آخری دن تک نماز عید کو پڑھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:612/2) واللہ أعلم۔ مختصر یہ کہ امام بخاری ؒ نے اس روایت کے عموم سے استدلال کیا ہے کہ جب عید سب کے لیے ہے تو نماز عید بھی سب کے لیے ہو گی، خواہ شہری ہوں یا دیہاتی، مرد ہوں یا عورتیں۔
(2) حدیث کے آخر میں لفظ أمنا کو امن سے ماخوذ بتایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امان سے ماخوذ نہیں کیونکہ لفظ امان کا اطلاق کفارومشرکین پر کیا جاتا ہے، اگر اسے امان سے ماخوذ کیا جائے تو عید کی خوشیاں سب کے لیے ہوں گی، خواہ وہ مشرک ہوں یا کافر۔ امن سے ماخوذ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اہل حبشہ کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے ہراساں کر دیا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں امن کی حالت میں رہنے دو، جو کچھ کرتے ہیں انہیں کرنے دو، یعنی اے بنی ارفدہ! امن و اطمینان کے ساتھ کھیلتے رہو۔