باب: عید کے خطبہ میں امام کا اور لوگوں کا باتیں کرنا
)
Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: If the Imam is asked about something while he is delivering the Khutba)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور امام کا جواب دینا جب خطبے میں اس سے کچھ پوچھا جائے۔
997.
حضرت جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے عیدالاضحیٰ کے دن نماز پڑھی، پھر خطبہ دیا، پھر قربانی کی اور دوران خطبہ میں فرمایا: ’’جس نے نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کیا تو اسے دسرا جانور ذبح کرنا چاہئے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہیں کیا اسے چاہئے کہ اب اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔‘‘
تشریح:
(1) خطبۂ جمعہ کا سننا واجب ہے۔ اس دوران میں گفتگو کرنا منع ہے۔ خطبۂ عید کے متعلق اتنی سختی نہیں ہے کیونکہ اس کے متعلق حدیث میں ہے کہ جو چاہے سننے کے لیے بیٹھا رہے۔ اور جس کا جی چاہے وہ چلا جائے۔ اس کے علاوہ دیگر مواعظ میں رخصت ہے کہ کوئی اٹھ جائے یا بیٹھ کر سنتا رہے۔ (2) یہ پابندی صرف مقتدی حضرات کے لیے ہے کیونکہ امام دوران خطبہ میں بات بھی کر سکتا ہے اور کسی کے سوال کا جواب بھی دے سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطبۂ عیدین میں کچھ وسعت سمجھتے ہیں۔ مذکورہ عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اسی کو ثابت کیا گیا ہے۔ گویا اس میں حسب ذیل دو احکام ہیں: ٭ خطبۂ عید کے دوران خطیب اور سامع کسی مسئلے پر گفتگو کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ٭ کیا خطیب سے دوران خطبہ میں کوئی سوال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ بعض شارحین نے اس عنوان کو تکرار قرار دیا ہے، حالانکہ پہلا حکم دوسرے حکم سے عام حیثیت رکھتا ہے۔ مصنف نے جواب اس لیے نہیں دیا کہ حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے کیونکہ دوران خطبہ میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بردہ بن نیار ؓ کا باہمی گفتگو کرنا پہلا حکم ثابت کرتا ہے جبکہ بکری کے یک سالہ بچے کے متعلق حضرت ابو بردہ ؓ کا رسول اللہ ﷺ سے سوال کرنا دوسرے حکم کی دلیل ہے، نیز واضح رہے کہ آخری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے متعلق جو ہدایات دی ہیں وہ خطبے کا حصہ ہیں، خطبے کی تکمیل کے بعد آپ نے قربانی کو ذبح فرمایا۔ (فتح الباري:608/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
971
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
985
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
985
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
985
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
اور امام کا جواب دینا جب خطبے میں اس سے کچھ پوچھا جائے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے عیدالاضحیٰ کے دن نماز پڑھی، پھر خطبہ دیا، پھر قربانی کی اور دوران خطبہ میں فرمایا: ’’جس نے نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کیا تو اسے دسرا جانور ذبح کرنا چاہئے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہیں کیا اسے چاہئے کہ اب اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) خطبۂ جمعہ کا سننا واجب ہے۔ اس دوران میں گفتگو کرنا منع ہے۔ خطبۂ عید کے متعلق اتنی سختی نہیں ہے کیونکہ اس کے متعلق حدیث میں ہے کہ جو چاہے سننے کے لیے بیٹھا رہے۔ اور جس کا جی چاہے وہ چلا جائے۔ اس کے علاوہ دیگر مواعظ میں رخصت ہے کہ کوئی اٹھ جائے یا بیٹھ کر سنتا رہے۔ (2) یہ پابندی صرف مقتدی حضرات کے لیے ہے کیونکہ امام دوران خطبہ میں بات بھی کر سکتا ہے اور کسی کے سوال کا جواب بھی دے سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطبۂ عیدین میں کچھ وسعت سمجھتے ہیں۔ مذکورہ عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اسی کو ثابت کیا گیا ہے۔ گویا اس میں حسب ذیل دو احکام ہیں: ٭ خطبۂ عید کے دوران خطیب اور سامع کسی مسئلے پر گفتگو کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ٭ کیا خطیب سے دوران خطبہ میں کوئی سوال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ بعض شارحین نے اس عنوان کو تکرار قرار دیا ہے، حالانکہ پہلا حکم دوسرے حکم سے عام حیثیت رکھتا ہے۔ مصنف نے جواب اس لیے نہیں دیا کہ حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے کیونکہ دوران خطبہ میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بردہ بن نیار ؓ کا باہمی گفتگو کرنا پہلا حکم ثابت کرتا ہے جبکہ بکری کے یک سالہ بچے کے متعلق حضرت ابو بردہ ؓ کا رسول اللہ ﷺ سے سوال کرنا دوسرے حکم کی دلیل ہے، نیز واضح رہے کہ آخری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے متعلق جو ہدایات دی ہیں وہ خطبے کا حصہ ہیں، خطبے کی تکمیل کے بعد آپ نے قربانی کو ذبح فرمایا۔ (فتح الباري:608/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے، ان سے جندب نے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہوتو اسے دوسرا جانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہیے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیا ہو وہ اللہ کے نام پر ذبح کرے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jundab (RA): On the day of Nahr the Prophet (ﷺ) offered the prayer and delivered the Khutba and then slaughtered the sacrifice and said, "Anybody who slaughtered (his sacrifice) before the prayer should slaughter another animal in lieu of it, and the one who has not yet slaughtered should slaughter the sacrifice mentioning Allah's name on it."