تشریح:
(1) امام بخارى ؒ نے اس عنوان کو اوقات وتر کے بعد قائم کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وتر کا پسندیدہ وقت رات کا آخری حصہ ہے، خواہ انسان تہجد پڑھے یا نہ پڑھے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے خود اپنے آپ پر اعتماد ہو کہ صبح بیدار ہو جائے یا کم از کم اسے کوئی بیدار کرنے والا ہو، بصورت دیگر اسے عشاء کے بعد نماز وتر پڑھ لینی چاہیے۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز وتر کا معاملہ عام نوافل جیسا ہے، تاہم اس کی ادائیگی کے لیے خصوصی اہتمام کا حکم ہے۔ جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے لیکن یہ فرض نہیں ہے، چنانچہ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ وتر، فرض نماز کی طرح حتمی نہیں بلکہ سنت ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمایا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:453) ایک روایت میں ہے کہ وتر حق ہے، لہٰذا جس نے وتر نہ پڑھا وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسند أحمد:357/5) حافظ ابن حجر ؒ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (التلخیص الحبیر:20/2)