تشریح:
(1) رات کی آخری نماز، وتر کو بنانے کے متعلق مذکورہ امر نبوی استحباب کے لیے ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے نماز وتر کے بعد دو رکعت پڑھنا بھی ثابت ہے، چنانچہ حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کے بعد دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:471) اور رسول اللہ ﷺ نے امت کو وتر کے بعد دو رکعت پڑھنے کی ترغیب بھی دی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’صبح کے وقت نماز شب کے لیے بیدار ہونا بہت گراں اور مشقت کا باعث ہے، اس لیے وتر کے بعد دو رکعت پڑھ لی جائیں، اگر بیدار ہو جائے تو بہتر بصورت دیگر یہی اس کے لیے کافی ہے۔‘‘ (صحیح ابن خزیمة: 159/2) اس حدیث پر محدث ابن خزیمہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’وتر کے بعد جو نفل نماز پڑھنا چاہے اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد جو دو نفل پڑھتے تھے وہ آپ کا خاصا نہیں بلکہ یہ عمل تمام امت کے لیے مشروع ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:159/2)
(2) اس حدیث سے بعض حضرات نے وتروں کے واجب ہونے کو ثابت کیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ جب صلاۃ اللیل واجب نہیں تو اس کے آخر میں پڑھی جانے والی نماز کیونکر واجب ہو گی، نیز اصل تو کسی چیز کا غیر واجب ہونا ہے تا آنکہ اس کا واجب ہونا دلیل سے ثابت ہو جائے۔ (فتح الباري:628/2)