باب: اس کے بارے میں جو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہائے
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: Pouring water thrice on one's head)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
261.
حضرت ابو جعفر ؓ کا بیان ہے کہ ہم سے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے فرمایا: میرے پاس تمہارے چچا زاد آئے تھے، ان کا اشارہ حسن بن محمد ابن حنفیہ کی طرف تھا، انهوں نے پوچھا: غسل جنابت کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا: نبی ﷺ تین چلو لیتے اور انہیں اپنے سر پر بہاتے تھے، پھر اپنے تمام بدن پر پانی ڈالتے تھے۔ حسن نے کہا: میں تو بہت بالوں والا شخص ہوں۔ میں نے جواب دیا: نبی ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔
تشریح:
1۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ جب رسول الله ﷺ تم سے زیادہ بالوں والے اور زیادہ نظافت پسند بھی تھے، پھر بھی انھوں نے تین دفعہ سر پر پانی ڈالا اور اس مقدار پر اکتفا کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ صفائی اور طہارت اتنی مقدار سے ضرور حاصل ہو جاتی ہے۔ اس سے زیادہ پرصفائی کا مدار خیال کرنا خود پسندی کی علامت ہے، یا وہم و وسوسہ کی وجہ سے ہے جس کو اہمیت دینا مناسب نہیں۔ (فتح الباري:478/1) 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ اموردین کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کے لیے علماء سے سوال کرنا چاہیے اور عالم کو چاہیے کہ جواب دینے میں بخل سے کام نہ لے نیز طالب حق کا شیوه یہ ہونا چاہیے کہ جب حق واضح ہو جائے تو اسے قبول کرنے میں حیل و حجت نہ کرے۔ (عمدة القاري:24/3) 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسن بن محمد کا یہ سوال ابو جعفر کے ذکر کردہ سوال سے الگ ہے، دونوں واقعات میں حضرت جابر ؓ سے تعرض کرنے والے حسن بن محمد ہیں۔ سابق الذکر میں انھوں نے مقدار پانی پر اعتراض کیا تھا کہ مجھے اتنا کافی نہیں ہوتا اور یہاں انھوں نے کیفیت پر اعتراض کیا ہے کہ اس طرح میرے بال صاف نہیں ہوتے۔ پہلے واقعے کے وقت ابو جعفر موجود تھے، جبکہ اس واقعے کے وقت وہ موجود نہیں تھے۔ (فتح الباري:478/1) 4۔ حضرت جابر ؓ کا حسن بن محمد کو ابو جعفر کا چچا زاد بھائی کہنا بطور مجاز ہے، کیونکہ وہ دراصل ابو جعفر باقر کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں، وہ اس بنا پر کہ زین العابدین حضرت حسین ؓ کے بیٹے ہیں۔ اورحسن حضرت محمد ابن حنفیہ کے صاحبزادے ہیں اور محمد ابن حنفیہ حضرت علی ؓ کے صاحبزادے ہیں گویا حضرت حسین اور حضرت محمد ابن حنفیہ آپس میں پدری بھائی ہیں۔ لہٰذا حضرت حسن ابو جعفر کے نہیں بلکہ ان کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں اور حضرت جابر ؓ نے مجازی طور پر انھیں ابو جعفر کا چچا زاد کہا ہے۔ (فتح الباري:478/1) 5۔ حنفیہ نامی عورت حضرت علی ؓ کی بیوی تھیں جو حضرت فاطمہ ؓ کی وفات کے بعد آپ کے عقد میں آئیں، ان کے بطن سے محمد نامی بچہ پیدا ہوا اور وہ بجائے باپ کے ماں ہی کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ یزید بن معاویہ کے پاس گزرا، اس بنا پر یا لوگوں نے حضرت علی ؓ کی طرف منسوب کرنا اچھا خیال نہیں کیا تاکہ حضرت علی ؓ کے ساتھ خاندانی رقابت قائم رہے۔ واللہ أعلم۔ انہی محمد کے بیٹے حسن ہیں جو حضرت جابر ؓ سے غسل کے متعلق بحث و تحصیص کرتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
258
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
256
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
256
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
256
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
حضرت ابو جعفر ؓ کا بیان ہے کہ ہم سے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے فرمایا: میرے پاس تمہارے چچا زاد آئے تھے، ان کا اشارہ حسن بن محمد ابن حنفیہ کی طرف تھا، انهوں نے پوچھا: غسل جنابت کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا: نبی ﷺ تین چلو لیتے اور انہیں اپنے سر پر بہاتے تھے، پھر اپنے تمام بدن پر پانی ڈالتے تھے۔ حسن نے کہا: میں تو بہت بالوں والا شخص ہوں۔ میں نے جواب دیا: نبی ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ جب رسول الله ﷺ تم سے زیادہ بالوں والے اور زیادہ نظافت پسند بھی تھے، پھر بھی انھوں نے تین دفعہ سر پر پانی ڈالا اور اس مقدار پر اکتفا کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ صفائی اور طہارت اتنی مقدار سے ضرور حاصل ہو جاتی ہے۔ اس سے زیادہ پرصفائی کا مدار خیال کرنا خود پسندی کی علامت ہے، یا وہم و وسوسہ کی وجہ سے ہے جس کو اہمیت دینا مناسب نہیں۔ (فتح الباري:478/1) 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ اموردین کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کے لیے علماء سے سوال کرنا چاہیے اور عالم کو چاہیے کہ جواب دینے میں بخل سے کام نہ لے نیز طالب حق کا شیوه یہ ہونا چاہیے کہ جب حق واضح ہو جائے تو اسے قبول کرنے میں حیل و حجت نہ کرے۔ (عمدة القاري:24/3) 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسن بن محمد کا یہ سوال ابو جعفر کے ذکر کردہ سوال سے الگ ہے، دونوں واقعات میں حضرت جابر ؓ سے تعرض کرنے والے حسن بن محمد ہیں۔ سابق الذکر میں انھوں نے مقدار پانی پر اعتراض کیا تھا کہ مجھے اتنا کافی نہیں ہوتا اور یہاں انھوں نے کیفیت پر اعتراض کیا ہے کہ اس طرح میرے بال صاف نہیں ہوتے۔ پہلے واقعے کے وقت ابو جعفر موجود تھے، جبکہ اس واقعے کے وقت وہ موجود نہیں تھے۔ (فتح الباري:478/1) 4۔ حضرت جابر ؓ کا حسن بن محمد کو ابو جعفر کا چچا زاد بھائی کہنا بطور مجاز ہے، کیونکہ وہ دراصل ابو جعفر باقر کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں، وہ اس بنا پر کہ زین العابدین حضرت حسین ؓ کے بیٹے ہیں۔ اورحسن حضرت محمد ابن حنفیہ کے صاحبزادے ہیں اور محمد ابن حنفیہ حضرت علی ؓ کے صاحبزادے ہیں گویا حضرت حسین اور حضرت محمد ابن حنفیہ آپس میں پدری بھائی ہیں۔ لہٰذا حضرت حسن ابو جعفر کے نہیں بلکہ ان کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں اور حضرت جابر ؓ نے مجازی طور پر انھیں ابو جعفر کا چچا زاد کہا ہے۔ (فتح الباري:478/1) 5۔ حنفیہ نامی عورت حضرت علی ؓ کی بیوی تھیں جو حضرت فاطمہ ؓ کی وفات کے بعد آپ کے عقد میں آئیں، ان کے بطن سے محمد نامی بچہ پیدا ہوا اور وہ بجائے باپ کے ماں ہی کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ یزید بن معاویہ کے پاس گزرا، اس بنا پر یا لوگوں نے حضرت علی ؓ کی طرف منسوب کرنا اچھا خیال نہیں کیا تاکہ حضرت علی ؓ کے ساتھ خاندانی رقابت قائم رہے۔ واللہ أعلم۔ انہی محمد کے بیٹے حسن ہیں جو حضرت جابر ؓ سے غسل کے متعلق بحث و تحصیص کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم (فضل بن دکین) نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر بن یحییٰ بن سام نے روایت کیا، کہا کہ ہم سے ابوجعفر (محمد باقر) نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ میرے پاس تمہارے چچا کے بیٹے (ان کی مراد حسن بن محمد ابن حنفیہ سے تھی) آئے۔ انھوں نے پوچھا کہ جنابت کے غسل کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ تین چلو پانی لیتے اور ان کو اپنے سر پر بہاتے تھے۔ پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہاتے تھے۔ حسن نے اس پر کہا کہ میں تو بہت بالوں والا آدمی ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔
حدیث حاشیہ:
چچا کے بیٹے مجازاً کہا۔ دراصل وہ ان کے باپ یعنی زین العابدین کے چچازاد بھائی تھے، کیونکہ محمد ابن حنفیہ جناب حسن اور جناب حسین ؓ کے بھائی تھے۔ جو حسن کے باپ ہیں، جنھوں نے جابر سے یہ مسئلہ پوچھا تھا۔ ترجمۃ الباب اور احادیث واردہ کی مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ غسل جنابت میں سرمبارک پر تین چلو پانی بہاتے تھے۔ پس مسنون طریقہ یہی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول کریم ﷺ کا طرزعمل بہرصورت لائق اتباع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Ja'far (RA): Jabir bin Abdullah (RA) said to me, "Your cousin (Hasan bin Muhammad bin Al-Hanafiya) came to me and asked about the bath of Janaba. I replied, 'The Prophet (ﷺ) uses to take three handfuls of water, pour them on his head and then pour more water over his body.' Al-Hasan said to me, 'I am a hairy man.' I replied, 'The Prophet (ﷺ) had more hair than you'."