مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3501.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تم سے پہلے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ مال واسباب دے رکھا تھا۔ جب اس پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگے تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: میں تمہارا کیساباپ ہوں؟ انھوں نے کہا: آپ ہمارے لیے بہترین باپ ہیں۔ اس نے کہا: میں نے اب تک کوئی اچھا کام نہیں کیا، لہذا جب میں مرجاؤں تومجھے جلادینا، پھر مجھے پیس کر تیز ہوا میں اُڑا دینا، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے(اس کے بکھرے ہوئے ذرات کو) اکھٹا کرکے فرمایا: تجھے اس بات پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: (اے اللہ!) تیرے خوف نے، چنانچہ اللہ نے اپنی رحمت سے اس کا استقبال کیا۔‘‘ معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے قتادہ سے خبر دی، انھوں نے عقبہ بن عبدالغافر سے سنا، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے اور انھوں نےنبی کریم ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔
تشریح:
اس کا یہ کام قدرت الٰہی کے عقیدے کے منافی تھا لیکن یہ معاملہ اس وقت کیا جب اس پر خوف کا غلبہ تھا اس بنا پروہ تدبر اور سوچ و بچارسے محروم تھا اور اسے ہر چیز بھول چکی تھی۔ ایسے حالات کی وجہ سے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوا۔ بہر حال اس شخص کا اللہ پر ایمان تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوال کرنے پر اس نے بتایا کہ مجھے تیرے خوف نے اس کام پر آمادہ کیا۔ شدت خوف کے وقت اگر کوئی ایسی بات یا ایسا کام کرے جو دائرہ اسلام سے خارج ہو نے کا باعث ہو تو اس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3346
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3478
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3478
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3478
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت بنی اسرائیل کے عجیب و غریب واقعات بیان ہوں گے۔گویا یہ پچھلے عنوان کا تتمہ ہے۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تم سے پہلے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ مال واسباب دے رکھا تھا۔ جب اس پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگے تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: میں تمہارا کیساباپ ہوں؟ انھوں نے کہا: آپ ہمارے لیے بہترین باپ ہیں۔ اس نے کہا: میں نے اب تک کوئی اچھا کام نہیں کیا، لہذا جب میں مرجاؤں تومجھے جلادینا، پھر مجھے پیس کر تیز ہوا میں اُڑا دینا، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے(اس کے بکھرے ہوئے ذرات کو) اکھٹا کرکے فرمایا: تجھے اس بات پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: (اے اللہ!) تیرے خوف نے، چنانچہ اللہ نے اپنی رحمت سے اس کا استقبال کیا۔‘‘ معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے قتادہ سے خبر دی، انھوں نے عقبہ بن عبدالغافر سے سنا، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے اور انھوں نےنبی کریم ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
اس کا یہ کام قدرت الٰہی کے عقیدے کے منافی تھا لیکن یہ معاملہ اس وقت کیا جب اس پر خوف کا غلبہ تھا اس بنا پروہ تدبر اور سوچ و بچارسے محروم تھا اور اسے ہر چیز بھول چکی تھی۔ ایسے حالات کی وجہ سے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوا۔ بہر حال اس شخص کا اللہ پر ایمان تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوال کرنے پر اس نے بتایا کہ مجھے تیرے خوف نے اس کام پر آمادہ کیا۔ شدت خوف کے وقت اگر کوئی ایسی بات یا ایسا کام کرے جو دائرہ اسلام سے خارج ہو نے کا باعث ہو تو اس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نےبیان کیا، کہاہم سے ابوعوانہ نےبیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سےعقبہ بن عبدالغافر نے، ان سے ابوسعید خدری نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے کہ گزشتہ امتوں میں ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے خوب دولت دی تھی۔ جب اس کی موت کاوقت آیا تواس نے اپنے بیٹوں سےپوچھا، میں تمہارے حق میں کیسا باپ ثابت ہوا؟ بیٹوں نےکہا کہ آپ ہمارے بہترین باپ تھے۔ اس شخص نےکہا لیکن میں نے عمربھر کوئی نیک کام نہیں کیا۔ اس لیے جب میں مرجاؤ تومجھے جلاڈالنا، پھر میری ہڈیوں کوپیس ڈالنا اور (راکھ کو) کسی سخت آندھی کی دن ہوامیں اڑادینا۔ بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن اللہ پاک نےاسے جمع کیا اور پوچھا کہ تونے ایسا کیوں کیا؟ اس شخص نے عرض کیا کہ پروردگار تیرے ہی خوف سے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نےاسےاپنے سایہ رحمت میں جگہ دی۔ اس حدیث کومعا ذ عنبری نےبیان کیا کہ ہم سےشعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، انہوں نے عقبہ بن عبدالغافر سےسنا، انہوں نے ابوسعید خدری سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Amongst the people preceding your age, there was a man whom Allah had given a lot of money. While he was in his death-bed, he called his sons and said, 'What type of father have I been to you? They replied, 'You have been a good father.' He said, 'I have never done a single good deed; so when I die, burn me, crush my body, and scatter the resulting ashes on a windy day.' His sons did accordingly, but Allah gathered his particles and asked (him), 'What made you do so?' He replied, "Fear of you.' So Allah bestowed His Mercy upon him. (forgave him)."