Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The time of the Asr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابو اسامہ نے ہشام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: (سیدہ عائشہؓ کے حجرے سے مراد) ان کے حجرے کا صحن ہے۔
555.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم (رسول اللہ ﷺ کے ساتھ) نماز عصر پڑھ لیتے، فراغت کے بعد کوئی شخص قبیلہ عمرو بن عوف تک جاتا تو انہیں وہاں نماز عصر میں مصروف پاتا۔
تشریح:
(1) امام نووی ؒ قبیلۂ عمرو بن عوف کی مدینے سے دوری اور نماز عصر کو دیر سے ادا کرنے کے متعلق فرماتے ہیں کے قبیلۂ عمرو بن عوف مدینہ طیبہ سے تقریباً دومیل کے فاصلے پرتھا۔ چونکہ وہ اپنے کاموں اور کھیتی باڑی میں مشغول رہتے تھے، اس لیے نماز عصر کو اوسط وقت میں پڑھا کرتے تھے۔ (فتح الباري:38/2) (2) یہ حدیث بھی نماز عصر کے اول وقت، یعنی ایک مثل سائے میں پڑھ لینے پر دلالت کرتی ہے، جیسا کہ امام نووی ؒ اس حدیث کے تحت بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث احناف کے خلاف حجت ہے جن کا موقف ہے کہ جب تک کسی چیز کا سایہ دومثل نہ ہو جائے، نماز عصر کاوقت شروع نہیں ہوتا۔ علامہ عینی ؒ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ تمام احناف کا یہ موقف ہے۔ صرف اسد بن عمرو، امام ابو حنیفہ ؒ سے یہ موقف بیان کرنے میں منفرد ہے۔ اس کے علاوہ حضرت حسن ان سے روایت کرتے ہیں کہ عصر کا وقت ایک مثل سایہ ہونے پر شروع ہو جاتا ہے۔ یہی قول ابو یوسف، محمد اور زفر کا ہے۔ امام طحاوی ؒ نے بھی اسی کو پسند کیا ہے۔ (عمدة الأحکام:44/4) لیکن عصر حاضر میں احناف کا عمل دومثل والے موقف پر ہی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
542
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
548
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
548
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
548
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
اس تعلیق کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان الفاظ کا اصل مقام متصل السند حدیث کے بعد ہے جسے امام بخاری آگے بیان کریں گے۔آپ کا اسلوب بیان بھی اسی طرح ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہشام سے بیان کرنے والے ان کے دوتلامذہ ہیں:انس بن عیاض اور ابو اسامہ۔انس بن عیاض نے جب اس روایت کو نقل کیا ہے تو اس کے الفاظ یہ ہیں کہ دھوپ ابھی میرے حجرے سے نہ نکلی ہوتی تھی،جبکہ ابو اسامہ اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ دھوپ ابھی ان کے حجرے کے صحن سے نہ نکلی ہوتی تھی۔تعجیل عصر کے ثبوت کے لیے متصل السند روایت کے مقابلے میں یہ معلق روایت زیادہ واضح ہے۔(فتح الباری:2/35)
ابو اسامہ نے ہشام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: (سیدہ عائشہؓ کے حجرے سے مراد) ان کے حجرے کا صحن ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم (رسول اللہ ﷺ کے ساتھ) نماز عصر پڑھ لیتے، فراغت کے بعد کوئی شخص قبیلہ عمرو بن عوف تک جاتا تو انہیں وہاں نماز عصر میں مصروف پاتا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام نووی ؒ قبیلۂ عمرو بن عوف کی مدینے سے دوری اور نماز عصر کو دیر سے ادا کرنے کے متعلق فرماتے ہیں کے قبیلۂ عمرو بن عوف مدینہ طیبہ سے تقریباً دومیل کے فاصلے پرتھا۔ چونکہ وہ اپنے کاموں اور کھیتی باڑی میں مشغول رہتے تھے، اس لیے نماز عصر کو اوسط وقت میں پڑھا کرتے تھے۔ (فتح الباري:38/2) (2) یہ حدیث بھی نماز عصر کے اول وقت، یعنی ایک مثل سائے میں پڑھ لینے پر دلالت کرتی ہے، جیسا کہ امام نووی ؒ اس حدیث کے تحت بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث احناف کے خلاف حجت ہے جن کا موقف ہے کہ جب تک کسی چیز کا سایہ دومثل نہ ہو جائے، نماز عصر کاوقت شروع نہیں ہوتا۔ علامہ عینی ؒ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ تمام احناف کا یہ موقف ہے۔ صرف اسد بن عمرو، امام ابو حنیفہ ؒ سے یہ موقف بیان کرنے میں منفرد ہے۔ اس کے علاوہ حضرت حسن ان سے روایت کرتے ہیں کہ عصر کا وقت ایک مثل سایہ ہونے پر شروع ہو جاتا ہے۔ یہی قول ابو یوسف، محمد اور زفر کا ہے۔ امام طحاوی ؒ نے بھی اسی کو پسند کیا ہے۔ (عمدة الأحکام:44/4) لیکن عصر حاضر میں احناف کا عمل دومثل والے موقف پر ہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
ابواسامہ نے ہشام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: (سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے سے مراد) ان کے حجرے کا صحن ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، وہ امام مالک ؓ علیہ سے، انھوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے روایت کیا، انھوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے اس حدیث کو روایت کیا، انھوں نے فرمایا کہ ہم عصر کی نماز پڑھ چکتے اور اس کے بعد کوئی بنی عمرو بن عوف (قبا) کی مسجد میں جاتا تو ان کو وہاں عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پاتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): We used to pray the Asr prayer and after that if someone happened to go to the tribe of Bani Amr bin Auf, he would find them still praying the Asr (prayer).