باب:اس بیان میں کہ نماز عصر کے چھوٹ جانے پر کتنا گناہ ہے
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The sin of one who misses the 'Asr prayer (intentionally))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
559.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص سے نماز عصر فوت ہو گئی، گویا اس کا سب گھر بار اور مال اسباب لٹ گئے۔‘‘
تشریح:
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ نماز عصر کا فوت ہونا گناہ کا باعث ہے، لیکن ایک غیر اختیاری فعل ہے اور غیراختیاری کام کے سرزد ہونے پر گناہ کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔ جواب یہ ہے کہ فوات اگرچہ غیر اختیاری طور پر ہوا لیکن جن اسباب کی وجہ سے کوتاہی ہوئی وہ تواختیاری تھے۔ بالعموم نماز کا فوت ہونا کاروباری مصروفیات اور اہل وعیال میں مشغولیت کی وجہ سے ہوتا ہے، حدیث میں بھی اسی کو بیان کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ غیر اختیاری ہونے کے باوجود یہ معاملہ معمولی نہیں کہ اس کے متعلق کوتاہی کی جائے، نماز عصر کیا فوت ہوئی کہ اس کا سب کچھ لٹ گیا۔ نماز عصر کو خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ ایک توقرآن میں اس کی اہمیت وخصوصیت واضح طور پر بیان ہوئی ہے، پھر پہلی امتوں نے بھی نماز عصر میں کوتاہی کی تھی، اس لیے ہمیں خبردار کیا گیا کہ اس کی ادائیگی کے متعلق خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ نماز عصر تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کی گئی تھی لیکن انھوں نے تن آسانی کی وجہ سے اس کا حق ادا نہ کیا، اس لیے تم میں سے جو انسان اس کی ادائیگی کا غیر معمولی اہتمام کرے گا، اسے اللہ کے ہاں دگنا اجر دیا جائے گا۔ (مسند أحمد:397/6) امام ترمذی ؒ نے مذکورہ حدیث کے مضمون کو سہوونسیان پر محمول کیا ہے، چنانچہ انھوں نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’نماز عصر سے سہو ہو جانے کا بیان۔‘‘ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جب آخرت میں نماز عصر کے اہتمام پر اجرو ثواب دیا جائے گا تو اس کے متعلق سہوونسیان کاشکار ہونے والا انسان اس قدر افسوس کرے گا، گویا اس کے اہل و عیال اور مال و اسباب تباہ ہوگئے ہوں۔ (فتح الباري:42/2) گویا امام بخاری ؒ نے اخروی حسرت و نقصان کو گناہ سے تعبیر کیا ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
546
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
552
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
552
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
552
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص سے نماز عصر فوت ہو گئی، گویا اس کا سب گھر بار اور مال اسباب لٹ گئے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ نماز عصر کا فوت ہونا گناہ کا باعث ہے، لیکن ایک غیر اختیاری فعل ہے اور غیراختیاری کام کے سرزد ہونے پر گناہ کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔ جواب یہ ہے کہ فوات اگرچہ غیر اختیاری طور پر ہوا لیکن جن اسباب کی وجہ سے کوتاہی ہوئی وہ تواختیاری تھے۔ بالعموم نماز کا فوت ہونا کاروباری مصروفیات اور اہل وعیال میں مشغولیت کی وجہ سے ہوتا ہے، حدیث میں بھی اسی کو بیان کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ غیر اختیاری ہونے کے باوجود یہ معاملہ معمولی نہیں کہ اس کے متعلق کوتاہی کی جائے، نماز عصر کیا فوت ہوئی کہ اس کا سب کچھ لٹ گیا۔ نماز عصر کو خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ ایک توقرآن میں اس کی اہمیت وخصوصیت واضح طور پر بیان ہوئی ہے، پھر پہلی امتوں نے بھی نماز عصر میں کوتاہی کی تھی، اس لیے ہمیں خبردار کیا گیا کہ اس کی ادائیگی کے متعلق خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ نماز عصر تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کی گئی تھی لیکن انھوں نے تن آسانی کی وجہ سے اس کا حق ادا نہ کیا، اس لیے تم میں سے جو انسان اس کی ادائیگی کا غیر معمولی اہتمام کرے گا، اسے اللہ کے ہاں دگنا اجر دیا جائے گا۔ (مسند أحمد:397/6) امام ترمذی ؒ نے مذکورہ حدیث کے مضمون کو سہوونسیان پر محمول کیا ہے، چنانچہ انھوں نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’نماز عصر سے سہو ہو جانے کا بیان۔‘‘ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جب آخرت میں نماز عصر کے اہتمام پر اجرو ثواب دیا جائے گا تو اس کے متعلق سہوونسیان کاشکار ہونے والا انسان اس قدر افسوس کرے گا، گویا اس کے اہل و عیال اور مال و اسباب تباہ ہوگئے ہوں۔ (فتح الباري:42/2) گویا امام بخاری ؒ نے اخروی حسرت و نقصان کو گناہ سے تعبیر کیا ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے نافع کے ذریعہ سے خبر پہنچائی، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور مال سب لٹ گیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سورہ محمد میں جو یترکم کا لفظ آیا ہے وہ وتر سے نکالا گیا ہے۔ وتر کہتے ہیں کسی شخص کا کوئی آدمی مار ڈالنا یا اس کا مال چھین لینا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever misses the 'Asr prayer (intentionally) then it is as if he lost his family and property."