مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2574.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: لوگ اس بات کااہتمام کرتے تھے کہ عائشہ کی باری کے دن اپنے تحائف بھیجیں اور اس طریقے سے وہ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی چاہتے تھے۔
تشریح:
جس دن رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف فرما ہوتے تو لوگ آپ کو ہدایا اور نذرانے بھیجا کرتے تھے۔ لوگوں کے دلوں میں حضرت عائشہ ؓ کا احترام دو پہلوؤں سے تھا: ٭ رسول اللہ ﷺ کو آپ سے خصوصی تعلق خاطر تھا، اس بنا پر لوگ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ٭ اپنے علم اور مرتبے کے لحاظ سے بھی ان کا ایک خاص مقام تھا، اس بنا پر لوگوں کا احترام اپنی جگہ پر قابل تعریف تھا۔ خدمت نبوی میں تحفہ اور پھر اسے حضرت عائشہ ؓ کی باری میں پیش کرنا ہر دو امور رسول اللہ ﷺ کی خوشی کا باعث تھے۔ اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ اس طریقے سے جو چیزیں حضرت عائشہ ؓ کے گھر پہنچتی تھیں ان میں سے تمام ازواج کو بھیجتے تھے۔ (فتح الباري:256/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2485
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2574
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2574
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2574
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: لوگ اس بات کااہتمام کرتے تھے کہ عائشہ کی باری کے دن اپنے تحائف بھیجیں اور اس طریقے سے وہ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی چاہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
جس دن رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف فرما ہوتے تو لوگ آپ کو ہدایا اور نذرانے بھیجا کرتے تھے۔ لوگوں کے دلوں میں حضرت عائشہ ؓ کا احترام دو پہلوؤں سے تھا: ٭ رسول اللہ ﷺ کو آپ سے خصوصی تعلق خاطر تھا، اس بنا پر لوگ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ٭ اپنے علم اور مرتبے کے لحاظ سے بھی ان کا ایک خاص مقام تھا، اس بنا پر لوگوں کا احترام اپنی جگہ پر قابل تعریف تھا۔ خدمت نبوی میں تحفہ اور پھر اسے حضرت عائشہ ؓ کی باری میں پیش کرنا ہر دو امور رسول اللہ ﷺ کی خوشی کا باعث تھے۔ اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ اس طریقے سے جو چیزیں حضرت عائشہ ؓ کے گھر پہنچتی تھیں ان میں سے تمام ازواج کو بھیجتے تھے۔ (فتح الباري:256/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ لوگ (رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں) تحائف بھیجنے کے لیے عائشہ ؓ کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اپنے ہدایا سی یا اس خاص دن کے انتظار سے راوی کو شک ہے) لوگ آنحضرت ﷺ کی خوشی حاصل کرنا چاہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
خدمت نبوی میں تحفہ اور پھر حضرت عائشہ ؓ کی باری میں پیش کرنا ہر دو امور رسول کریم ﷺ کی خوشی کا باعث تھے۔ راوی کے بیان کا یہی مطلب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): The people used to look forward for the days of my ('Aisha's) turn to send gifts to Allah's Apostle (ﷺ) in order to please him.