باب : جب حدی مقدمہ حاکم کے پاس پہنچ جائے پھر سفارش کرنا منع ہے بلکہ گناہ عظیم ہے ۔
)
Sahi-Bukhari:
Limits and Punishments set by Allah (Hudood)
(Chapter: Intercession is not recommended in the matter of legal punishment)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6788.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مخزومیہ عورت نے قریش کو پریشان کر دیا جس نے چوری کی تھی۔ قریش نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے محبوب حضرت اسامہ ؓ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس عورت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے گفتگو نہیں کر سکتا اور نہ کسی میں جرات ہی ہے کہ وہ آپ سے اس قسم کی بات کرے، چنانچہ حضرت اسامہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق بات کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے اسامہ! کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرنے آئے ہو؟“ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا، پھر فرمایا: اے لوگو! تم سے پہلے لوگ صرف اس لیے گمراہ ہوئے کہ ان میں جب کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد (ﷺ) نے بھی چوری کی ہوتی تو محمد (ﷺ) اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتے۔
تشریح:
(1) اس عورت کا نام فاطمہ بنت اسود تھا۔ اس کا باپ اسود بن اسد غزوۂ بدر میں قتل ہوا تھا۔ یہ عورت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر حضرت ابو سلمہ کی بھتیجی تھی۔ جب اس کی چوری ثابت ہو گئی تو پہلے اس کے خاندان نے چالیس اوقیے چاندی بطور فدیہ دینے کی پیش کش کی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس پر حد کا قائم ہونا بہتر ہے۔‘‘ پھر اس نے حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کی پناہ لی اور ان سے سفارش کی اپیل کی، چنانچہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول! اسے معاف کر دیں۔ یہ میری پھوپھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سفارش کو بھی مسترد کر دیا آخرکار انھوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کسی کی سفارش قبول نہ کی بلکہ آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اٹھو اور اس کا ہاتھ کاٹ دو، چنانچہ انھوں نے اس کا ہاتھ کات دیا، اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے توبہ کا دروازہ بند تو نہیں ہوا؟ تو آپ نے فرمایا: ’’آج تو اس غلطی سے یوں پاک ہو چکی ہے گویا آج ہی تجھے تیری ماں نے جنم دیا ہے۔‘‘ چنانچہ اس نے توبہ کی اور بنو سلیم کے ایک آدمی سے نکاح کر لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد وہ میرے پاس آئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی حاجت پیش کرتی۔ (2) بہرحال اس امر پر امت کا اجماع ہے کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہوتو کسی کو اس کے متعلق سفارش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کوئی سفارش کرتا ہے تو حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ سختی سے اسے رد کر دے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم کرے۔ (فتح الباري:113/12، 116)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6549
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6788
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6788
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6788
تمہید کتاب
دنیا میں مال ودولت کی فروانی مفاسد وخرابیاں پیدا کرنے کا باعث ہے،اسی طرح بعض اوقات دنیا کے سازو سامان سے محرومی بھی امن وسکون تباہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔تقسیم ترکہ کے وقت یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔کچھ رشتے داروں کو مفت میں دولت مل جاتی ہے تو کچھ تعلق دار اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔پھر کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی روک تھام کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا ہی کا فی نہیں ہوتا بلکہ سخت ترین ملامت اور تکلیف دہ سزا کا مقرر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔شریعت میں ایسی سزاؤں کو حدودوتعزیرات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔غالباً امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الفرائض کے بعد کتاب الحدود کو اسی مقصد کے پیش نظر بیان کیا ہے۔حدود، حد کی جمع ہے۔لغوی اعتبار سے اس کے معنی رکاوٹ ہیں۔چوکیدار کو حداد اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو اندر داخل ہونے سے منع کرتا ہے اور ان کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔شریعت کی نظر میں اس سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کا حق ہونے کی وجہ سے مقرر ہو۔اس سے تعزیر غیر مقرر سزا ور قصاص وغیرہ خارج ہے۔ چونکہ حد کی مختلف قسمیں ہیں،جیسے، حدزنا، ، حد قذف اور حد شراب نوشی وغیرہ،اس لیے قسموں کے اعتبار سے حد کی جمع حدودآئی ہے۔بعض اوقات حدود سے گناہ بھی مراد لیے جاتے ہیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "یہ معاصی اور گناہ اللہ کی حدیں ہیں تم ان قریب نہ جاؤ۔"(البقرۃ 2: 87) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حدودوتعزیرات کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:معلوم ہونا چاہیے کہ بعض گناہ ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے حد جاری فرمائی ہے اوراس قسم کے گناہ وہ ہیں جن میں مختلف قسم کے مفاسد موجود ہیں۔ان گناہوں کے کرنے سے زمین میں فساد پھیل جاتا ہے اور اہل زمین کا امن وسکون تباہ ہوجاتا ہے اور ایسے گناہوں کی خواہش انسانی نفوس میں ہمیشہ جذباتی کیفیت پیدا کردیتی ہے جس کی روک تھا سے لوگ قاصر ہوجاتے ہیں اور ان سے ایسے ایسے نقصانات ہوجاتے ہیں کہ اکثر اوقات خود مظلوم شخص بھی ان کی مدافعت نہیں کرپاتا،پھر عام لوگوں میں یہ گناہ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اس قسم کے گناہوں کو روکنے کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا کافی نہیں ہوتا بلکہ ان سے لوگوں کو باز رکھنے کے لیے سخت سزائیں مقرر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن میں ملامت کا پہلو بھی ہوتا ہے،تاکہ یہ عقوبت وسزا اور خطرۂ لعن طعن سامنے رہے اور لوگ اس قسم کے گناہ کرنے سے ڈرتے رہیں۔شریعت میں سزائیں مقرر کرنے کی یہی وجہ ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ)واضح رہے کہ انسان دو طریقوں سے جرائم سے بچ سکتا ہے،چنانچہ وہ انسان جس میں حیوانیت کا غلبہ ہے اسے سخت قسم کی عقوبت اور سنگین سزا ہی جرم کرنے سے باز رکھ سکتی ہے جیسا کہ حیوانات کو سخت جسمانی سزا ہی سرکشی سے باز رکھتی ہے،اور کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر حیوانیت کے بجائے جاہ وجلال کی محبت غالب ہوتی ہے،اس قسم کے لوگوں کو سخت قسم کی عار اور غیرت جرم کرنے سے روکتی ہے۔ ایسے شخص کے حق میں جسمانی تکلیف کے مقابلے میں عاروغیرت زیادہ کار گر ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حدود میں یہ دونوں طریقے سمو دیے گئے ہیں۔بہر حال جرائم کی روک تھام کے لیے حدود اللہ کا نفاذ انتہائی ضروری ہے۔احادیث میں انھیں قائم کرنے کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک حد جس کے مطابق زمین میں عمل کیا جاتا ہے وہ اہل زمین کے لیے چالیس دنوں کی بارش سے بہتر ہے۔"(سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2538) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں: " اللہ کی حدود میں سے ایک حد قائم کردینا اللہ کے شہروں میں چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے۔" (سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2537) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت زنا کاری،شراب نوشی اور چوری وغیرہ کی حدیں بیان کی ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے حد کو سترہ گناہوں پر واجب مانا ہے۔ان میں سے مرتد ہونا، ڈاکا مارنا، زنا کرنا،تہمت لگانا،شراب پینا اور چوری کرنا۔ان پر حد قائم کرنے کے متعلق علماء کا اتفاق ہے اور کچھ جرائم پر حد قائم کرنے میں اختلاف ہے،مثلاً: مانگی ہوئی چیز کا انکار کرنا،شراب کے علاوہ اور کوئی نشہ اور چیز استعمال کرنام،زنا کے علاوہ کسی چیز کی تہمت لگانا یا لواطت اگرچہ اپنی بیوی سے ہو،حیوانات سے جنسی خواہش پوری کرنا،عورتوں کا باہمی بدکاری کرنا، عورت کا کسی جانور سے خواہش پوری کرنا، جادو کرنا، سستی کہ وجہ سے نماز ترک کرنا اور شرعی عذر کے بغیر انسان کا روزہ توڑ دینا وغیرہ۔(فتح الباری:12/71)جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہوگا اگر دنیا میں اس پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوجائے گی بصورت دیگر وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے،وہ چاہے تو اسے معاف کردے اور چاہے تو اسے سزا دے کر اس کی تلافی کردے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے"الحدود كفارة“ کے عنوان میں اس امر کو بیان کیا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: "حدود شرعیہ سے گناہوں کے کفار کی دوجہتیں ہیں کیونکہ اس کا مرتکب یا تو ایسا شخص ہے جو امر الٰہی کا پابند اور حکم الٰہی کی اطاعت کرنے والا ہوگا اور خود کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے والا ہوگا تو ایسے شخص کے حق میں اللہ تعالیٰ کی حد کفارہ بن جاتی ہے اور دوسری جہت یہ ہے کہ اسے تکلیف وایذا پہنچائی جائے،اس طرح اسے گناہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔یہی باز رہنا اس کا کفارہ ہے۔"(حجۃ اللہ البالغہ، بحث حدود)امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الحدود میں مختلف مسائل واحکام کے استنباط کے لیے ایک سوتین (103)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اناسی(79) موصول اور چوبیس(24) کے قریب معلق اور متابعات ہیں،نیز باسٹھ(62) مکرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔آپ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابہ اور تابعین سے بیس(20)آثار بھی پیش کیے ہیں۔ان تمام مرفوع روایات اور آثار پر چھیالیس (46)چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں۔چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں:شراب نوشی کی سنگینی، شرابی کو مارنا، شراب کا رسیا دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا،غیر معین چور کو لعنت کرنا،حدود کفارہ ہیں،اللہ کی خاطر حدود قائم کرنا،امیرو غریب پر حد قائم کرنا،حدود کے متعلق سفارش کی حیثیت، چور کی توبہ،فحش کاری ترک کرنے کی فضیلت ، زنا کاروں کا گناہ، شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا، دیوانے مردوعورت کورجم نہ کیا جائے، غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے مارے جائیں،جرائم پیشہ لوگوں اور ہیجڑوں کو جلا وطن کرنا،تعزیرو تادیب کی سزا،پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا،غلام پر تہمت لگانا،حاکم کی غیر موجودگی میں حدلگانا۔بہرحال اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے بہت سے ایسے مسائل کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق اصلاح معاشرہ سے ہے۔ہماری گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الحدود کا مطالعہ کریں اور اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی برائیوں کی روک تھام کے لیے بھر پور کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمیں یا رب العالمین.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مخزومیہ عورت نے قریش کو پریشان کر دیا جس نے چوری کی تھی۔ قریش نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے محبوب حضرت اسامہ ؓ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس عورت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے گفتگو نہیں کر سکتا اور نہ کسی میں جرات ہی ہے کہ وہ آپ سے اس قسم کی بات کرے، چنانچہ حضرت اسامہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق بات کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے اسامہ! کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرنے آئے ہو؟“ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا، پھر فرمایا: اے لوگو! تم سے پہلے لوگ صرف اس لیے گمراہ ہوئے کہ ان میں جب کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد (ﷺ) نے بھی چوری کی ہوتی تو محمد (ﷺ) اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس عورت کا نام فاطمہ بنت اسود تھا۔ اس کا باپ اسود بن اسد غزوۂ بدر میں قتل ہوا تھا۔ یہ عورت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر حضرت ابو سلمہ کی بھتیجی تھی۔ جب اس کی چوری ثابت ہو گئی تو پہلے اس کے خاندان نے چالیس اوقیے چاندی بطور فدیہ دینے کی پیش کش کی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس پر حد کا قائم ہونا بہتر ہے۔‘‘ پھر اس نے حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کی پناہ لی اور ان سے سفارش کی اپیل کی، چنانچہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول! اسے معاف کر دیں۔ یہ میری پھوپھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سفارش کو بھی مسترد کر دیا آخرکار انھوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کسی کی سفارش قبول نہ کی بلکہ آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اٹھو اور اس کا ہاتھ کاٹ دو، چنانچہ انھوں نے اس کا ہاتھ کات دیا، اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے توبہ کا دروازہ بند تو نہیں ہوا؟ تو آپ نے فرمایا: ’’آج تو اس غلطی سے یوں پاک ہو چکی ہے گویا آج ہی تجھے تیری ماں نے جنم دیا ہے۔‘‘ چنانچہ اس نے توبہ کی اور بنو سلیم کے ایک آدمی سے نکاح کر لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد وہ میرے پاس آئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی حاجت پیش کرتی۔ (2) بہرحال اس امر پر امت کا اجماع ہے کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہوتو کسی کو اس کے متعلق سفارش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کوئی سفارش کرتا ہے تو حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ سختی سے اسے رد کر دے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم کرے۔ (فتح الباري:113/12، 116)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک مخزومی عورت کا معاملہ جس نے چوری کی تھی، قریش کے لوگوں کے لیے اہمیت اختیار کر گیا اور انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ سے اس معاملہ میں کون بات کر سکتا ہے اسامہ ؓ کے سوا، جو آنحضرت ﷺ کو بہت پیارے ہیں اور کوئی آپ سے سفارش کی ہمت نہیں کر سکتا؟ چنانچہ اسامہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے بات کی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا، کیا تم اللہ کی حدوں میں سفارش کرنے آئے ہو۔ ”پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اس لیے گمراہ ہوگئے کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے تھے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدﷺ نے بھی چوری کی ہوتی تو محمد ﷺ اس کا ہاتھ ضرور کاٹ ڈالتے۔
حدیث حاشیہ:
اس سفارش پر آپ نے حضرت اسامہ کو تنبیہ فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : The Quraish people became very worried about the Makhzumiya lady who had committed theft. They said, "Nobody can speak (in favor of the lady) to Allah's Apostle (ﷺ) and nobody dares do that except Usama who is the favorite of Allah's Apostle. " When Usama spoke to Allah's Apostle (ﷺ) about that matter, Allah's Apostle (ﷺ) said, "Do you intercede (with me) to violate one of the legal punishment of Allah?" Then he got up and addressed the people, saying, "O people! The nations before you went astray because if a noble person committed theft, they used to leave him, but if a weak person among them committed theft, they used to inflict the legal punishment on him. By Allah, if Fatima, the daughter of Muhammad committed theft, Muhammad will cut off her hand.!"