باب : سورۃ مائدہ میں فرمان کہ جس نے مرتے کو بچالیا اس نے گویا سب لوگوں کی جان بچالی
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: “And if anyone saved a life….”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابن عباس ؓنے کہا کہ من احیاھا کا معنی یہ ہے کہ جس نے ناحق خون کرنا حرام رکھا گویا اس نے اس عمل سے تمام لوگوں کو زندہ رکھا۔اس یہ نا حق خون ایک کرے یا تمام کریں گناہ میں برابر ہیں اور جس نے نا حق خون سے پرہیز کیا تو گویا سب لوگوں کی جان بچا لی۔
6873.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں ان نقیبوں میں سے تھا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے (عقبہ کی رات) بیعت کی تھی۔ ہم نے آپ ﷺ سے اس امر پر بیعت کی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ ہم زنا نہیں کریں گے ہم چوری نہیں کریں گے، قتل ناحق نہیں کریں گے جسے اللہ تعالٰی نے حرام قرار دیا ہے۔ ہم لوٹ کھسوٹ نہیں کریں گے اور اگر ہم نے ان کاموں کی پابندی کی تو ہمارے جنت جانے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنے گی اور اگر ہم نے ان امور میں کوتاہی کی تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔
تشریح:
حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بیعت سے مراد وہ بیعت ہے جو منیٰ میں عَقَبَہ کی رات ہوئی تھی، حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع واطاعت کے متعلق تھی، خواہ ہم پر کیسے حالات ہوں، نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے پس وپیش نہ کریں۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث:7199) اور مذکورہ بیعت فتح مکہ کے دن ہوئی جو پہلی بیعت سے عرصۂ دراز بعد عمل میں آئی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک روایت کے مطابق راوی نے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے حسب ذیل آیت کی تلاوت کی: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4894) اور یہ آیت صلح حدیبیہ کے دنوں میں نازل ہوئی تھی۔ (فتح الباري:245/12) اس آیت کے مطابق آدمیوں سے بیعت لی گئی تھی، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل ناحق نہ کرنے پر اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بیعت لی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا قتل ناحق کی قباحت اور خرابی بیان کرنا مقصود ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6626
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6873
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6873
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6873
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
پیش کردہ آیت کا آغاز اس طرح ہے: "ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا تھا کہ جس شخص نے دوسرے کو جان کے بدلے یا زمین میں فساد برپا کرنے کے علاوہ سے قتل کیا تو اس نے گویا سب لوگوں کو ہی مار ڈالا۔"(المائدہ5: 32) شریعت نے صرف تین صورتوں میں قتل کو جائز قرار دیا ہے:٭قتل کے بدلے قتل،یعنی قصاص۔٭شادی شدہ مرد عورت زنا کریں تو رجم کرکے مار ڈالنا۔٭ اگر کوئی دین اسلام سے پھر جائے تو اسے قتل کرنا۔ان تینوں صورتوں کے علاوہ جو بھی قتل ہوگا وہ قتل ناحق اور فساد فی الارض کے ضمن میں آئے گا۔ واللہ اعلم
ابن عباس ؓنے کہا کہ من احیاھا کا معنی یہ ہے کہ جس نے ناحق خون کرنا حرام رکھا گویا اس نے اس عمل سے تمام لوگوں کو زندہ رکھا۔اس یہ نا حق خون ایک کرے یا تمام کریں گناہ میں برابر ہیں اور جس نے نا حق خون سے پرہیز کیا تو گویا سب لوگوں کی جان بچا لی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں ان نقیبوں میں سے تھا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے (عقبہ کی رات) بیعت کی تھی۔ ہم نے آپ ﷺ سے اس امر پر بیعت کی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ ہم زنا نہیں کریں گے ہم چوری نہیں کریں گے، قتل ناحق نہیں کریں گے جسے اللہ تعالٰی نے حرام قرار دیا ہے۔ ہم لوٹ کھسوٹ نہیں کریں گے اور اگر ہم نے ان کاموں کی پابندی کی تو ہمارے جنت جانے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنے گی اور اگر ہم نے ان امور میں کوتاہی کی تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بیعت سے مراد وہ بیعت ہے جو منیٰ میں عَقَبَہ کی رات ہوئی تھی، حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع واطاعت کے متعلق تھی، خواہ ہم پر کیسے حالات ہوں، نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے پس وپیش نہ کریں۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث:7199) اور مذکورہ بیعت فتح مکہ کے دن ہوئی جو پہلی بیعت سے عرصۂ دراز بعد عمل میں آئی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک روایت کے مطابق راوی نے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے حسب ذیل آیت کی تلاوت کی: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4894) اور یہ آیت صلح حدیبیہ کے دنوں میں نازل ہوئی تھی۔ (فتح الباري:245/12) اس آیت کے مطابق آدمیوں سے بیعت لی گئی تھی، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل ناحق نہ کرنے پر اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بیعت لی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا قتل ناحق کی قباحت اور خرابی بیان کرنا مقصود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عباس ؓنے اس کے معنی یوں کیے ہیں: جس نے ناحق خون کرنا حرام رکھا تو گویا اس نے اس عمل سے تمام لوگوں کو زندہ رکھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر نے، ان سے صنابحی نے اور ان سے عبادہ بن صامت ؓ نے بیان کیا کہ میں ان نقیبوں میں سے تھا جنہوں نے (منیٰ میں لیلۃ العقبہ کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی۔ ہم نے اس کی بیعت (عہد) کی تھی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، ہم چوری نہیں کریں گے، زنا نہیں کریں گے، کسی کی ناحق جان نہیں لیں گے جو اللہ نے حرام کی ہے، ہم لوٹ مار نہیں کریں گے اور آپ ﷺ کی نافرمانی نہیں کریں گے اور یہ کہ اگر ہم نے اس پر عمل کیا تو ہمیں جنت ملے گی اور اگر ہم نے ان میں سے کسی طرح کا گناہ کیا تو اس کا فیصلہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہاں ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
جو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubadah bin As-Samat (RA) : I was among those Naqibs (selected leaders) who gave the Pledge of allegiance to Allah's Apostle. We gave the oath of allegiance, that we would not join partners in worship besides Allah, would not steal, would not commit illegal sexual intercourse, would not kill a life which Allah has forbidden, would not commit robbery, would not disobey (Allah and His Apostle) (ﷺ) , and if we fulfilled this pledge we would have Paradise, but if we committed any one of these (sins), then our case will be decided by Allah.