صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
47. باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ آل عمران میں ) یوں فرمانا’’ اے رسول ! کہہ دے اچھا تورات لاؤ اور اسے پڑھ کرسناؤ اگرتم سچےہو‘‘
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
47. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا} [آل عمران: 93]
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
47. Chapter: “…Say Bring here the Taurat and recite it…”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ آل عمران میں ) یوں فرمانا’’ اے رسول ! کہہ دے اچھا تورات لاؤ اور اسے پڑھ کرسناؤ اگرتم سچےہو‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “…Say Bring here the Taurat and recite it…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریمﷺ کا یوں فرمانا کہ توراۃ والے توراۃ دئیے گئے انہوں نے اس پر عمل کیا۔ انجیل والے انجیل دئیے گئے انہوں نے اس پر عمل کیا۔ تم قرآن دئیے گئے تم نے اس پر عمل کیا۔ اور ابورزین نے کہا «يتلونه»کا مطلب یہ ہے کہ اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس پر جیسا عمل کرنا چاہئیے ویسا عمل کرتے ہیں تو تلاوت کرنا ایک عمل ٹھہرا۔ عرب کہتے ہیں«يتلى»یعنی پڑھا جاتا ہے اور کہتے ہیں فلاں شخص کی تلاوت یا قرآت اچھی ہے اور قرآن میں(سورۃ الواقعہ میں)ہے«لا يمسه»یعنی قرآن کا مزہ وہی پائیں گے اس کا فائدہ وہی اٹھائیں گے جو کفر سے پاک یعنی قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور قرآن کو اس کے حق کے ساتھ وہی اٹھائے گا جس کو آخرت پر یقین ہو گا کیونکہ(سورۃ الجمعہ میں)فرمایاان لوگوں کی مثال جن سے توراۃ اٹھائی گئی پھر انہوں نے اس کو نہیں اٹھایا، (اس پر عمل نہیں کیا)ایسی ہے جیسے گدھے کی مثال جس پر کتابیں لدی ہوں۔ جن لوگوں نے اللہ کی باتوں کو جھٹلایا ان کی ایسی ہی بری مثال ہے اور اللہ ایسے شریر لوگوں کو راہ پر نہیں لگاتا۔“اور نبی کریمﷺ نے اسلام اور ایمان دونوں کو مکمل فرمایا۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا نبی کریم ﷺنے بلال ؓ سے فرمایا کہ تم مجھ سے اپنا وہ زیادہ امید کا عمل بیان کرو جس کو تم نے اسلام کے زمانہ میں کیا ہو۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے اسلام کے زمانہ میں اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا ہے کہ میں نے جب وضو کیا تو اس کے بعد تحیۃ الوضو کی دو رکعت نماز پڑھی اور نبی کریمﷺ سے پوچھا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا پھر وہ حج جس کے بعد گناہ نہ ہو۔
7533.
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گزشتہ امتوں کے مقابلے میں تمہاری بقا صرف اس قدر ہے جتنا عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت۔ اہل تورات کو تورات دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ دن آدھا ہوگیا اور وہ عاجز ہوگئے۔ انہیں اجرت کے طور پر ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ پھر وہ عاجز ہوگئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر تمہیں قرآن دیا گیا تو تم نے اس پر عمل کیا تاآنکہ مغرب کا وقت ہوگیا۔ تمہیں دو قیراط اجرت دی گئی۔ اہل کتاب نے کہا: ان لوگوں نے تھوڑا وقت کام کیا ہے لیکن انہیں اجرت زیادہ دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں نے تمہارے حق سے کچھ کم تو نہیں کیا؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ میرا افضل ہے میں جسے چاہوں دوں۔“
تشریح:
تورات وانجیل پر عمل کرنے میں ان دونوں کتابوں کو قراءت بھی شامل ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ قراءت ایک عمل ہے جو بندے کا فعل ہے اور اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہی ثابت کیا ہے کہ تلاوت، بندے کا فعل ہے اور متلو، یعنی جسے پڑھا گیا وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ واللہ أعلم۔
اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ تلاوت تورات سے مراد اس کی قراءت کرنا ہے اور پیش کی گئی معلق روایت میں تلاوت کی تفسیر عمل سے کی گئی ہے کیونکہ اس میں تورات وانجیل پر عمل کرنے کا ذکر ہے اور عمل کا عموم تلاوت کو بھی شامل ہے۔اور عمل،عامل کا فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے ،اس کے علاوہ جس کلام کو پڑھا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو قاری کی آواز سے حروف سے سناجاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس معلق روایت کو شاید آیت میں تلاوت تورات کی تفسیر کے لیے پیش کیا ہے ۔اس کے علاوہ ابورزین کے اثر سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت سے مراد اس کے مطابق عمل کرناہے جس کی نسبت بندوں کی طرف ہے اور بندوں کے اعمال تو اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل آیت کریمہ کی بھی وضاحت کی ہے:(أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ)"کیا انھیں یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے جو ان کے سامنے پڑھی جاتی ہے۔"(العنکبوت 29/51)اس آیت کریمہ میں لفظ (يُتْلَى) سے مرادقراءت ہے اور قراءت کو بہترین اور اچھے نہ ہونے سے موصوف کیا جاسکتا ہےجبکہ متلو،یعنی قرآن کو اچھے نہ ہونے سے متصف نہیں کیا جاسکتا۔اس سے معلوم ہوا کہ تلاوت اور متلو میں نمایاں فرق ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اسے پاکیزہ لوگ ہی چھوتے ہیں۔"(الواقعہ 56/79)اس سے مراد بھی یہ ہے کہ ایماندار ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے اور اس کا ذائقہ چکھ سکتا ہے اور اس پر یقین رکھنے والا اس کا متحمل ہوسکتا ہے جیسا کہ آیت جمعہ میں اس کی وضاحت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ کسی چیز کا ذائقہ پانا یا اس کا متحمل ہونا مختلف ہوتا ہے ،اس سے مراد عمل اور قراءت دونوں ہیں۔معلوم ہوا کہ عمل اور قراءت بندے کا کسب ہے کیونکہ یہ دونوں بندے کی طرف منسوب ہیں۔پیش کی گئی معلق احادیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام اور ایمان ایک عمل ہے اور نماز بھی ایک عمل ہے جو قراءت قرآن پر مشتمل ہوتی ہے۔حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز کو عمل قراردیا ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا ہے ۔اس سے ثابت ہوا کہ قراءت قرآن بھی ایک عمل ہے جو بندے کا فعل اور مخلوق ہے اورقرآن جسے پڑھا جاتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔
اور نبی کریم ﷺ کا یوں فرمانا کہ توراۃ والے توراۃ دئیے گئے انہوں نے اس پر عمل کیا۔ انجیل والے انجیل دئیے گئے انہوں نے اس پر عمل کیا۔ تم قرآن دئیے گئے تم نے اس پر عمل کیا۔ اور ابورزین نے کہا «يتلونه» کا مطلب یہ ہے کہ اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس پر جیسا عمل کرنا چاہئیے ویسا عمل کرتے ہیں تو تلاوت کرنا ایک عمل ٹھہرا۔ عرب کہتے ہیں «يتلى» یعنی پڑھا جاتا ہے اور کہتے ہیں فلاں شخص کی تلاوت یا قرآت اچھی ہے اور قرآن میں (سورۃ الواقعہ میں) ہے «لا يمسه» یعنی قرآن کا مزہ وہی پائیں گے اس کا فائدہ وہی اٹھائیں گے جو کفر سے پاک یعنی قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور قرآن کو اس کے حق کے ساتھ وہی اٹھائے گا جس کو آخرت پر یقین ہو گا کیونکہ (سورۃ الجمعہ میں) فرمایا ان لوگوں کی مثال جن سے توراۃ اٹھائی گئی پھر انہوں نے اس کو نہیں اٹھایا، (اس پر عمل نہیں کیا) ایسی ہے جیسے گدھے کی مثال جس پر کتابیں لدی ہوں۔ جن لوگوں نے اللہ کی باتوں کو جھٹلایا ان کی ایسی ہی بری مثال ہے اور اللہ ایسے شریر لوگوں کو راہ پر نہیں لگاتا۔“ اور نبی کریم ﷺ نے اسلام اور ایمان دونوں کو مکمل فرمایا۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا نبی کریم ﷺنے بلال ؓ سے فرمایا کہ تم مجھ سے اپنا وہ زیادہ امید کا عمل بیان کرو جس کو تم نے اسلام کے زمانہ میں کیا ہو۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے اسلام کے زمانہ میں اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا ہے کہ میں نے جب وضو کیا تو اس کے بعد تحیۃ الوضو کی دو رکعت نماز پڑھی اور نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا پھر وہ حج جس کے بعد گناہ نہ ہو۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گزشتہ امتوں کے مقابلے میں تمہاری بقا صرف اس قدر ہے جتنا عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت۔ اہل تورات کو تورات دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ دن آدھا ہوگیا اور وہ عاجز ہوگئے۔ انہیں اجرت کے طور پر ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ پھر وہ عاجز ہوگئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر تمہیں قرآن دیا گیا تو تم نے اس پر عمل کیا تاآنکہ مغرب کا وقت ہوگیا۔ تمہیں دو قیراط اجرت دی گئی۔ اہل کتاب نے کہا: ان لوگوں نے تھوڑا وقت کام کیا ہے لیکن انہیں اجرت زیادہ دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں نے تمہارے حق سے کچھ کم تو نہیں کیا؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ میرا افضل ہے میں جسے چاہوں دوں۔“
حدیث حاشیہ:
تورات وانجیل پر عمل کرنے میں ان دونوں کتابوں کو قراءت بھی شامل ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ قراءت ایک عمل ہے جو بندے کا فعل ہے اور اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہی ثابت کیا ہے کہ تلاوت، بندے کا فعل ہے اور متلو، یعنی جسے پڑھا گیا وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺ کا ارشاد ہے: اہل تورات کو تورات دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا اور اہل انجیل کو انجیل دی گئی تو انہوں نے بھی اس پر عمل کیا اور تمہیں قرآن کریم دیا گیا تم نے بھی اس پر عمل کیا۔¤ابو زرین نے « یتلونہ حق تلاوتہ»اسے کہا جاتا ہے جس کا قرآن کریم پڑھنا عمدہ ہو¤
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (لا یمسہ) قرآن کریم کا مزہ وہی پائے گا اور اس سے فائدہ وہی اٹھائے گا جو کفر کی آلائش سے پاک ہو،یعنی وہ قرآن پر ایمان لائے۔اس قرآن کو حق کے ساتھ وہی اٹھاتا ہے جو اس پر یقین رکھتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا، پھر انہوں نے یہ بار نہ ااٹھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو، بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا۔ اور اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔“ ¤نبی ﷺ نے اسلام ایمان اور نماز کو عمل کہا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی ﷺ نے سیدنا بلال سے فرمایا: ”مجھے اس پر امید عمل کی خبر دو جو تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہو؟ انہوں نے کہا: میرا پر امید عمل یہ ہے کہ میں نے جب بھی وضو کیا ، اس کے بعد دو رکتعیں ضرور پڑھیں۔آپ ﷺ سے پوچھا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا،پھر وہ حج جس کے بعد کوئی گناہ باقی نہ رہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گذشتہ امتوں کے مقابلہ میں تمہارا وجود ایسا ہے جیسے عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت، اہل توریت کو توریت دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا اور وہ عاجز ہو گئے۔ پھر انہیں ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا، انہیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ مغرب کا وقت ہو گیا، تمہیں دو دو قیراط دئیے گئے، اس پر کتاب نے کہا کہ یہ ہم سے عمل میں کم ہیں اور اجر میں زیادہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا میں نے تمہارا حق دینے میں کوئی ظلم کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں دوں۔
حدیث حاشیہ:
یعنی یہ نسبت یہود اورنصاریٰ کے دونوں کوملا کرمسلمانوں کا وقت بہت کم تھا جس میں انہوں نے کام کیا کیونکہ کہاں صبح سے لے کر عصر تک، کہاں عصرسے سورج ڈوبنےتک، اب حنفیہ کا یہ استدلال صحیح نہیں کہ عصر کا وقت دو مثل سایہ سے شروع ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "Your stay (in this world) in comparison to the stay of the nations preceding you, is like the period between 'Asr prayer and the sun set (in comparison to a whole day). The people of the Torah were given the Torah and they acted on it till midday and then they were unable to carry on. And they were given (a reward equal to) one Qirat each. Then the people of the Gospel were given the Gospel and they acted on it till 'Asr Prayer and then they were unable to carry on, so they were given la reward equal to) one Qirat each. Then you were given the Qur'an and you acted on it till sunset, therefore you were given (a reward equal to) two Qirats each. On that, the people of the Scriptures said, 'These people (Muslims) did less work than we but they took a bigger reward.' Allah said (to them). 'Have I done any oppression to you as regards your rights?' They said, "No." Then Allah said, 'That is My Blessing which I grant to whomsoever I will.' "