Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: What is said about knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ترجمۃ الباب :
اور امام حسن بصری اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ اس نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا تھا کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم لوگ نماز پڑھا کریں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں۔ تو یہ ( گویا ) آنحضرتﷺ کے سامنے پڑھنا ہی ٹھہرا۔ ضمام نے پھر جا کر اپنی قوم سے یہ بیان کیا تو انھوں نے اس کو جائز رکھا۔ اور امام مالک نے دستاویز سے دلیل لی جو قوم کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے دستاویز پر گواہ کیا اور پڑھنے والا پڑھ کر استاد کو سناتا ہے پھر کہتا ہے مجھ کو فلاں نے پڑھایا۔ابن بطال نے کہا کہ دستاویز والی دلیل بہت ہی پختہ ہے کیونکہ شہادت تواخبار سے بھی زیادہ اہم ہے۔ مطلب یہ کہ صاحب معاملہ کو دستاویز پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ اس کا اقرار کرے تو اس سے روایت کرنا صحیح ہوگا۔حدثنا محمد بن سلام حدثنا محمد بن الحسن الواسطي عن عوف عن الحسن قال لا بأس بالقراءة على العالم. وأخبرنا محمد بن يوسف الفربري وحدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال حدثنا عبيد الله بن موسى عن سفيان قال إذا قرئ على المحدث فلا بأس أن يقول حدثني. قال وسمعت أبا عاصم يقول عن مالك وسفيان القراءة على العالم وقراءته سواء.ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انھوں نے عوف سے، انھوں نے حسن بصری سے، انھوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔
-1.
کتاب ہٰذا کی موجودہ ترقیم میں اس نمبر پر کوئی حدیث نہیں-
تشریح:
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
64
٢
ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
-1
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
61.01
٤
ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
-1
٥
ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
-1
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
-1
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
-1
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
-1
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
-1
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اس طویل عبارت میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طریقہ تعلیم کے دو انداز بیان کیے ہیں۔(الف)۔طریقہ قراءت :طالب علم حدیث پڑھے اور استاد اسے سنے۔(ب)۔طریقہ عرض: طالب علم کے پاس استاد کی کوئی کتاب پہلے سے موجود ہے وہ اپنے استاد کو سناکر اس کی اجازت چاہتا ہے طریقہ قراءت کے لیے عرض کاہونا ضروری نہیں،البتہ عرض کے لیے قراءت کا ہوناضروری ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ طریقہ قراءت اور طریقہ عرض میں عموم وخصوص مطلق کی نسبت ہے۔محدثین کے ہاں یہ دونوں طریقے رائج ہیں،البتہ ان کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ طریقہ قراءت سے راجح ہے کیونکہ اگر شیخ پڑھنے میں مشغول ہوتو ممکن ہے کہ سبقت لسانی سے الفاظ میں ردوبدل ہوجائے،پھر اس کااثر معنی پرپڑے۔ایسے حالات میں شاگرد ہبیت کی وجہ سے اپنے استاد کو ٹوک نہیں سکے گا۔اس کے برعکس اگرشاگردوں پڑھے گا تو استاد کی غلطی پر تنبیہ کرتارہے گا یا پھر اس کی تصدیق کرتا رہے گا۔محتاط محدثین کا فیصلہ ہے کہ اگر استاد حفظ سے بیان کرے تو طریقہ تحدیث بہترہے اور اگر کتاب سامنے ہوتو طریقہ قراءت وعرض راجح ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کےنزدیک دونوں طریقے برابر ہیں اور اس کے اثبات کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد اکابرمحدثین کے اقوال مختلف سندوں سے پیش کیے ہیں پھر اس عبارت میں تکرار نہیں بلکہ پہلے انھوں نے محدثین کے سادہ اقوال پیش کیے ۔اس کے بعد انھیں باقاعدہ سند سے پیش فرمایا۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے طریقہ قراءت کے حجت ہونے پر عجیب اندازسےاستدلال فرمایا ہے،اس کے دوطریقے ہیں۔الف۔کاتب،متعاقدین کا کوئی معاملہ تحریر کرکے انھیں گواہوں کی موجودگی میں سنادیتا ہے۔وہ دنوں اسے تسلیم کرتے ہیں ۔وہ گواہوں کے سامنے خود اس کی قرائت نہیں کرتے لیکن بوقت ضرورت عدالت میں وہ گواہ پیش ہوجائیں تو عدالت ان کی گواہی کااعتبار کرتی ہے۔ب۔طالب علم اپنے استاد کے سامنے قرآن مجید کی قراءت کرتا ہے اور مقری یعنی استاد سن کر اس کی اصلاح کرتا ہے پھر یہ قاری یعنی شاگرد دوسرے کے سامنے یوں کہتا ہے کہ مجھے فلان استاد نے اس طرح پڑھایا،حالانکہ استاد نے سنا تھا،پڑھایا نہیں تھا۔جب قرآن کے متعلق یہ طریقہ قراءت معتبر ہے تو حدیث کے معاملے میں اسے بالاولیٰ معتبر ہوناچاہیے۔
ترجمۃ الباب :
اور امام حسن بصری اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ اس نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا تھا کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم لوگ نماز پڑھا کریں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں۔ تو یہ ( گویا ) آنحضرتﷺ کے سامنے پڑھنا ہی ٹھہرا۔ ضمام نے پھر جا کر اپنی قوم سے یہ بیان کیا تو انھوں نے اس کو جائز رکھا۔ اور امام مالک نے دستاویز سے دلیل لی جو قوم کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے دستاویز پر گواہ کیا اور پڑھنے والا پڑھ کر استاد کو سناتا ہے پھر کہتا ہے مجھ کو فلاں نے پڑھایا۔ابن بطال نے کہا کہ دستاویز والی دلیل بہت ہی پختہ ہے کیونکہ شہادت تواخبار سے بھی زیادہ اہم ہے۔ مطلب یہ کہ صاحب معاملہ کو دستاویز پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ اس کا اقرار کرے تو اس سے روایت کرنا صحیح ہوگا۔حدثنا محمد بن سلام حدثنا محمد بن الحسن الواسطي عن عوف عن الحسن قال لا بأس بالقراءة على العالم. وأخبرنا محمد بن يوسف الفربري وحدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال حدثنا عبيد الله بن موسى عن سفيان قال إذا قرئ على المحدث فلا بأس أن يقول حدثني. قال وسمعت أبا عاصم يقول عن مالك وسفيان القراءة على العالم وقراءته سواء.ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انھوں نے عوف سے، انھوں نے حسن بصری سے، انھوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔
حدیث ترجمہ:
کتاب ہٰذا کی موجودہ ترقیم میں اس نمبر پر کوئی حدیث نہیں-
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپ کہہ دیجیے! میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
ملحوظہ: صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں باب ما جاء فى العلم کا باب نہیں ہے اور بعض میں ذیل کا باب نہیں ہے، بلکہ اس کو لفظ باب کے بغیر پہلے باب کے ساتھ ہی بیان کیا گیا ہے۔ ہمارے نسخے میں اس پر بھی باب کا لفظ ہے۔ زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دو نہیں ایک ہی باب ہے اور وہ بھی پہلا۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ذیل کے باب پر نمبر نہیں ہے۔ واللہ اعلم
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ثابت نے انس سے نقل کیا‘ انہوں نے فرمایا کہ ہم کو قرآن کریم میں رسول اکرمﷺ سے سوالات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ (اے محمدﷺ!) ہمارے ہاں آپ کا مبلغ گیا تھا۔ جس نے ہم کو خبر دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے‘ ایسا آپ کا خیال ہے؟ آپﷺ نے فرمایا اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ آسمان کس نے پیدا کئے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ زمین کس نے پیدا کی ہے اور پہاڑ کس نے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ ان میں نفع دینے والی چیزیں کس نے پیدا کی ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے کہا کہ پس اس ذات کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں جس نے زمین وآسمان اور پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں منافع پیدا کیے کہ کیا اللہ عزوجل نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپﷺ نے جواب دیا کہ ہاں بالکل سچ ہے۔ (اللہ نے مجھ کو رسول بنایا ہے) پھر اس نے کہا کہ آپ کے مبلغ نے بتلایا ہے کہ ہم پر پانچ وقت کی نمازیں اور مال سے زکوۃ ادا کرنا اسلامی فرائض ہیں‘ کیا یہ درست ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپﷺ کو رسول بنایا ہے کیا اللہ پاک ہی نے آپ کو ان چیزوں کا حکم فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں بالکل درست ہے۔ پھر وہ بولا آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ہاں وہ سچا ہے۔ پھر وہ بولا میں آپﷺ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپﷺ کو رسول بنا کر بھیجا کہ کیا اللہ ہی نے آپﷺ کو یہ حکم فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ نہ کروں گا نہ کم کروں گا۔ (بلکہ ان ہی کے مطابق اپنی زندگی گزار دوں گا) آپﷺ نے فرمایا اگر اس نے اپنی اس بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضرور ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔