باب: (وتر اور ہر نماز میں) قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد پڑھ سکتے ہیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Witr Prayer
(Chapter: To recite Qunut before and after bowing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1004.
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: قنوت مغرب اور فجر کی نماز میں پڑھی جاتی تھی۔
تشریح:
(1) وتر کی اہمیت و سنیت بیان کرنے کے بعد دوسرا اہم مسئلہ قنوت کا ہے کہ وہ کن نمازوں میں ہے اور اس کا محل کیا ہے؟ واضح رہے کہ شریعت میں قنوت کی دو اقسام ہیں: ٭ قنوت وتر ٭ قنوت نازلہ۔ ہمارے نزدیک قنوت وتر سارے سال میں اور رکوع سے پہلے ہوتی ہے جبکہ قنوت نازلہ ہنگامی حالات میں رکوع کے بعد ہوتی ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے قنوت وتر کے متعلق کوئی صریح حدیث بیان نہیں کی بلکہ قنوت نازلہ سے متعلقہ احادیث بیان کر کے قنوت وتر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں دوران نماز ہی میں پڑھی جاتی ہیں۔ امام بخاری ؒ کے ذکر کردہ دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ نے تین طرح سے قنوت وتر کو ثابت کیا ہے: ٭ حضرت انس ؓ سے مروی احادیث میں مطلق قنوت کا ذکر ہے۔ اس اطلاق سے امام بخاری ؒ نے قنوت وتر کو ثابت کیا ہے۔ جیسا کہ حدیث 1002 میں ہے۔ ٭ حضرت انس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ نماز مغرب میں قنوت ہے۔ چونکہ نماز مغرب دن کے وتر ہیں، اس لیے رات کے وتر میں بھی قنوت کی جا سکتی ہے۔ ٭ جب فرض نماز میں قنوت پڑھنی جائز ہے تو وتر میں بطریق اولیٰ جائز ہونی چاہیے، یعنی امام بخاری ؒ نے بطریق قیاس نماز وتر میں قنوت ثابت کی ہے۔ حضرت حسن بن علی ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے چند کلمات سکھائے تاکہ میں انہیں قنوت وتر میں پڑھوں۔ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث:1425) نماز وتر میں قنوت سے متعلق یہ حدیث صحیح اور صریح ہے، لیکن امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہیں تھی، اس لیے انہوں نے اس کا حوالہ نہیں دیا۔ علامہ زین بن منیر ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے نماز وتر میں قنوت کی مشروعیت کا ذکر کر کے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو قنوت وتر کے قائل نہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ اسے بدعت قرار دیتے تھے۔ (فتح الباري:631/2) (3) نماز وتر میں دعائے قنوت کے محل کی تعیین کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ رکوع سے پہلے ہے۔ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا واضح عمل اور کھلا فرمان ہمارے لیے قطعی فیصلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ بیشتر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی یہی بات منقول ہے۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ حضرت ابی بن کعب ؓ نماز وتر میں محل قنوت کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا معمول بیان کرتے ہیں کہ آپ وتر ادا کرتے وقت رکوع سے پہلے دعائے قنوت کرتے تھے۔ (سنن النسائي، قیام اللیل، حدیث:1700) سنن ابن ماجہ میں بھی محل قنوت کی تعیین کی گئی ہے کہ رکوع سے پہلے ہے۔ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:1182) اس روایت کو سفیان نے اپنے شیخ زبید الیامی سے بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ دو مزید طرق سے یہ روایت مروی ہے۔ ٭ فطر بن خلیفہ (سنن الدارقطني:30/2) ٭ معر بن کدام (السنن الکبریٰ للبیھقي:40/3)، اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان بھی ہے جسے حضرت حسن بن علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے دعائے قنوت سکھائی کہ میں وتر ادا کرتے وقت جب قراءت سے فارغ ہو جاؤں تو اسے پڑھوں۔ یہ روایت بھی اپنے مفہوم کے اعتبار سے بالکل واضح ہے کہ نماز وتر میں قنوت قراءت کے بعد رکوع سے پہلے ہے۔ ٭ مذکورہ روایات کے علاوہ کچھ آثار صحابہ بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز وتر میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھی جاتی تھی جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ اسود بن یزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ نے وتر میں رکوع سے پہلے قنوت فرمائی۔ (المصنف لابن أبي شیبة:302/3) ٭ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے متعلق راوی بیان کرتا ہے کہ آپ ہر رات وتر میں رکوع سے پہلے دعائے قنوت کرتے تھے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:302/3) ٭ حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور رسول اللہ ﷺ کے دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نماز وتر میں رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:302/3) ٭ علامہ البانی ؒ نے صحیح بخاری کی پیش کردہ حدیث 1002 سے استدلال کیا ہے جو قابل ملاحظہ ہے۔ اس روایت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہنگامی حالات کے پیش نظر جو دعا کی جائے وہ رکوع کے بعد ہے اور حضرت انس ؓ نے جس قنوت کو رکوع سے پہلے بیان کیا ہے وہ ہنگامی حالات کے پیش نظر نہیں بلکہ وہ قنوت وتر ہے کیونکہ جو قنوت عام حالات میں مانگی جاتی ہے وہ صرف قنوت وتر ہے۔ (إرواءالغلیل:158/2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ قنوت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے صحیح طور پر یہی ثابت ہے کہ رکوع سے پہلے ہے، البتہ بعض صحابۂ کرام کا عمل ہے اس سے کچھ مختلف ہے۔ (فتح الباري:832/2) بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کا اختلاف اپنے اندر جواز کا پہلو رکھتا ہے، یعنی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح جائز ہے۔ (صفة الصلاة، ص178) محدث العصر علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کبھی وتر میں دعا کرتے تو رکوع سے پہلے اس کا اہتمام کرتے تھے۔ مزید لکھتے ہیں کہ صحابۂ کرام ؓ سے ثبوت کے ساتھ جو صحیح بات منقول ہے وہ یہ ہے کہ نماز وتر میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے ہو۔ (إرواءالغلیل:164/3) اگر وتر کی دعا کو ہنگامی حالات کے پیش نظر قنوت نازلہ کی شکل دے دی جائے تو رکوع کے بعد جواز کی گنجائش ہے۔ جیسا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ ہنگامی حالات کے پیش نظر نماز وتر میں مخالفین اسلام کے خلاف بد دعاء، رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام اور عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے دعا کرنے کے بعد الله أكبر کہتے اور سجدے میں چلے جاتے۔ (صحیح ابن خزیمة:158/2) علامہ البانی ؒ نے بھی اس موقف کی تائید فرمائی ہے۔ مذکورہ دلائل و براہین کا تقاضا ہے کہ نماز وتر میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے ہے۔ اگر دعائے قنوت کو قنوت نازلہ کی شکل دے دی جائے تو اسے رکوع کے بعد بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
990
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1004
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1004
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1004
تمہید کتاب
عشاء اور فجر کے درمیان بہت سا وقت خالی ہے جس میں کوئی نماز فرض نہیں، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے بہت قیمتی ہے کہ اس میں فضا بہت پرسکون ہوتی ہے۔ جس قدر یکسوئی اور دل جمعی اس وقت ہوتی ہے دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی۔ یہ وقت نماز وتر کے لیے بہت موزوں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو سرخ اونٹوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک مقرر کیا ہے، یعنی اسے اس دوران میں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نماز کے آداب و احکام بیان کرنے کے لیے ایک مرکزی عنوان قائم کیا ہے جس میں پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں اور ان پر سات (7) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تمام محدثین نے نماز تہجد اور نماز وتر کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا رابطہ اور تعلق بھی ہے، اس لیے نماز تہجد کے ابواب میں وتر اور ابواب وتر میں تہجد کا ذکر ہوتا ہے۔ نماز وتر، نماز تہجد کا ایک حصہ ہے جو اس سے صورت، قراءت اور قنوت وغیرہ کے اعتبار سے الگ اور مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ نماز وتر کے متعلق کئی ایک مسائل ذکر ہوں گے، مثلاً: نماز وتر واجب ہے یا سنت؟ اس کی رکعات کتنی ہیں؟ نیت شرط ہے یا نہیں؟ اس میں مخصوص سورتوں کی قراءت ہوتی ہے؟ اس کا آخری وقت کیا ہے؟ کیا اسے دوران سفر میں سواری پر پڑھا جا سکتا ہے؟ اگر نماز وتر رہ جائے تو اسے بطور قضا پڑھا جا سکتا ہے؟ اس میں قنوت کی حیثیت کیا ہے؟ محل قنوت کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ اس میں کون سی دعا مشروع ہے؟ اسے وصل یا فصل سے پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟ وتر کے بعد دو رکعت پڑھنی ثابت ہیں یا نہیں؟ پھر اسے بیٹھ کر پڑھنا چاہیے یا کھڑے ہو کر، اس کے متعلق طریقۂ نبوی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں احکام بیان کیے ہیں جنہیں ہم ذکر کریں گے۔ ان شاءاللہامام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوتر میں 15 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک معلق اور باقی موصول ہیں، پھر آٹھ مکرر ہیں اور سات خالص۔ ان سب احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی تین آثار بھی متصل اسانید سے بیان کیے ہیں۔ نماز وتر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کے لیے اپنے اہل خانہ کو پچھلی رات بیدار کیا کرتے تھے، جو سو کر آخر شب بیدار نہیں ہو سکتا تھا اسے اول رات ادا کرنے کا حکم فرماتے تھے اور اگر رہ جاتے تو اس کی قضا کا حکم دیتے تھے۔ الغرض نماز وتر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت و فضیلت کو خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الوتر کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت استدلال اور طریقۂ استنباط سے آگاہی ہو۔ (والله الموفق وهو الهادي إلي سواء السبيل)
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: قنوت مغرب اور فجر کی نماز میں پڑھی جاتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) وتر کی اہمیت و سنیت بیان کرنے کے بعد دوسرا اہم مسئلہ قنوت کا ہے کہ وہ کن نمازوں میں ہے اور اس کا محل کیا ہے؟ واضح رہے کہ شریعت میں قنوت کی دو اقسام ہیں: ٭ قنوت وتر ٭ قنوت نازلہ۔ ہمارے نزدیک قنوت وتر سارے سال میں اور رکوع سے پہلے ہوتی ہے جبکہ قنوت نازلہ ہنگامی حالات میں رکوع کے بعد ہوتی ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے قنوت وتر کے متعلق کوئی صریح حدیث بیان نہیں کی بلکہ قنوت نازلہ سے متعلقہ احادیث بیان کر کے قنوت وتر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں دوران نماز ہی میں پڑھی جاتی ہیں۔ امام بخاری ؒ کے ذکر کردہ دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ نے تین طرح سے قنوت وتر کو ثابت کیا ہے: ٭ حضرت انس ؓ سے مروی احادیث میں مطلق قنوت کا ذکر ہے۔ اس اطلاق سے امام بخاری ؒ نے قنوت وتر کو ثابت کیا ہے۔ جیسا کہ حدیث 1002 میں ہے۔ ٭ حضرت انس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ نماز مغرب میں قنوت ہے۔ چونکہ نماز مغرب دن کے وتر ہیں، اس لیے رات کے وتر میں بھی قنوت کی جا سکتی ہے۔ ٭ جب فرض نماز میں قنوت پڑھنی جائز ہے تو وتر میں بطریق اولیٰ جائز ہونی چاہیے، یعنی امام بخاری ؒ نے بطریق قیاس نماز وتر میں قنوت ثابت کی ہے۔ حضرت حسن بن علی ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے چند کلمات سکھائے تاکہ میں انہیں قنوت وتر میں پڑھوں۔ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث:1425) نماز وتر میں قنوت سے متعلق یہ حدیث صحیح اور صریح ہے، لیکن امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہیں تھی، اس لیے انہوں نے اس کا حوالہ نہیں دیا۔ علامہ زین بن منیر ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے نماز وتر میں قنوت کی مشروعیت کا ذکر کر کے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو قنوت وتر کے قائل نہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ اسے بدعت قرار دیتے تھے۔ (فتح الباري:631/2) (3) نماز وتر میں دعائے قنوت کے محل کی تعیین کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ رکوع سے پہلے ہے۔ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا واضح عمل اور کھلا فرمان ہمارے لیے قطعی فیصلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ بیشتر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی یہی بات منقول ہے۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ حضرت ابی بن کعب ؓ نماز وتر میں محل قنوت کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا معمول بیان کرتے ہیں کہ آپ وتر ادا کرتے وقت رکوع سے پہلے دعائے قنوت کرتے تھے۔ (سنن النسائي، قیام اللیل، حدیث:1700) سنن ابن ماجہ میں بھی محل قنوت کی تعیین کی گئی ہے کہ رکوع سے پہلے ہے۔ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:1182) اس روایت کو سفیان نے اپنے شیخ زبید الیامی سے بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ دو مزید طرق سے یہ روایت مروی ہے۔ ٭ فطر بن خلیفہ (سنن الدارقطني:30/2) ٭ معر بن کدام (السنن الکبریٰ للبیھقي:40/3)، اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان بھی ہے جسے حضرت حسن بن علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے دعائے قنوت سکھائی کہ میں وتر ادا کرتے وقت جب قراءت سے فارغ ہو جاؤں تو اسے پڑھوں۔ یہ روایت بھی اپنے مفہوم کے اعتبار سے بالکل واضح ہے کہ نماز وتر میں قنوت قراءت کے بعد رکوع سے پہلے ہے۔ ٭ مذکورہ روایات کے علاوہ کچھ آثار صحابہ بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز وتر میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھی جاتی تھی جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ اسود بن یزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ نے وتر میں رکوع سے پہلے قنوت فرمائی۔ (المصنف لابن أبي شیبة:302/3) ٭ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے متعلق راوی بیان کرتا ہے کہ آپ ہر رات وتر میں رکوع سے پہلے دعائے قنوت کرتے تھے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:302/3) ٭ حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور رسول اللہ ﷺ کے دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نماز وتر میں رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:302/3) ٭ علامہ البانی ؒ نے صحیح بخاری کی پیش کردہ حدیث 1002 سے استدلال کیا ہے جو قابل ملاحظہ ہے۔ اس روایت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہنگامی حالات کے پیش نظر جو دعا کی جائے وہ رکوع کے بعد ہے اور حضرت انس ؓ نے جس قنوت کو رکوع سے پہلے بیان کیا ہے وہ ہنگامی حالات کے پیش نظر نہیں بلکہ وہ قنوت وتر ہے کیونکہ جو قنوت عام حالات میں مانگی جاتی ہے وہ صرف قنوت وتر ہے۔ (إرواءالغلیل:158/2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ قنوت کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے صحیح طور پر یہی ثابت ہے کہ رکوع سے پہلے ہے، البتہ بعض صحابۂ کرام کا عمل ہے اس سے کچھ مختلف ہے۔ (فتح الباري:832/2) بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کا اختلاف اپنے اندر جواز کا پہلو رکھتا ہے، یعنی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح جائز ہے۔ (صفة الصلاة، ص178) محدث العصر علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کبھی وتر میں دعا کرتے تو رکوع سے پہلے اس کا اہتمام کرتے تھے۔ مزید لکھتے ہیں کہ صحابۂ کرام ؓ سے ثبوت کے ساتھ جو صحیح بات منقول ہے وہ یہ ہے کہ نماز وتر میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے ہو۔ (إرواءالغلیل:164/3) اگر وتر کی دعا کو ہنگامی حالات کے پیش نظر قنوت نازلہ کی شکل دے دی جائے تو رکوع کے بعد جواز کی گنجائش ہے۔ جیسا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ ہنگامی حالات کے پیش نظر نماز وتر میں مخالفین اسلام کے خلاف بد دعاء، رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام اور عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے دعا کرنے کے بعد الله أكبر کہتے اور سجدے میں چلے جاتے۔ (صحیح ابن خزیمة:158/2) علامہ البانی ؒ نے بھی اس موقف کی تائید فرمائی ہے۔ مذکورہ دلائل و براہین کا تقاضا ہے کہ نماز وتر میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے ہے۔ اگر دعائے قنوت کو قنوت نازلہ کی شکل دے دی جائے تو اسے رکوع کے بعد بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، کہا کہ ہمیں خالد حذاء نے خبر دی، انہیں ابوقلابہ نے، انہیں انس بن مالک ؓ نے، آپ نے فرمایا کہ آنحضور ﷺ کے عہد میں قنوت مغرب اور فجر میں پڑھی جاتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
مگر ان حدیثوں میں جو امام بخاری ؒ اس باب میں لائے خاص وتر قنوت پڑھنے کا ذکر نہیں ہے مگر جب فرض نمازوں میں قنوت پڑھنا جائز ہوا تو وتر میں بطریق اولیٰ جائز ہوگا اور بعضوں نے کہا مغرب دن کا وتر ہے۔ جب اس میں قنوت پڑھنا ثابت ہوا تو رات کے وترمیں بھی ثابت ہوا۔حاصل یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے یہ باب لا کر ان لوگوں کا رد کیا جو قنوت کوبد عت کہتے ہیں۔ گزشتہ حدیث کے ذیل مولاناوحید الزماں صاحب ؒ فرماتے ہیں: یعنی ایک مہینے تک۔ اہلحدیث کا مذہب یہ ہے کہ قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح درست ہے اورصبح کی نماز میں اور اسی طرح ہر نماز میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے، قنوت پڑھنا چاہئے۔ عبد الرزاق اورحاکم نے بإسناد صحیح روایت کیا کہ آنحضرت ﷺ صبح کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے یہاں تک کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ قنوت ہمیشہ رکوع کے بعد پڑھے اور حنفیہ کہتے ہیں ہمیشہ رکوع سے پہلے پڑھے اور اہلحدیث سب سنتوں کا مزا لوٹتے ہیں۔ گزشتہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں اور ظالموں پر نماز میں بد دعا کر نے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ آپ نے ان قاریوں کو نجد والوں کی طرف بھیجا تھا، راہ میں بئر معونہ پر یہ لوگ اترے تو عامر بن طفیل نے رعل وذکوان اور عصبہ کے لوگوں کو لے کر ان پر حملہ کیا حالانکہ آنحضرت ﷺ سے اوران سے عہد تھا۔ لیکن انہوں نے دغاکی۔ قنوت کی صحیح دعا یہ ہے جو حضرت حسن ؓ وتر میں پڑھا کرتے تھے: اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ نستغفرك ونتوب إلیك وصلی اللہ علی النبي محمد۔ یہ دعابھی منقول ہے: اللھم اغفرلنا وللمومنین والمومنات والمسلمین والمسلمات اللھم ألف بین قلوبھم وأصلح ذات بینھم وانصرھم علی عدوك وعدوھم اللھم العن الکفرة الذین یصدون عن سبیلك ویقاتلون أولئك اللھم خالف بین کلمتھم وزلزل أقدامھم وأنزل بھم بأسك الذي لا تردہ عن القوم المجرمین اللھم أنج المستضعفین من المؤمنین اللھم اشدد وطأتك علی فلان واجعلھا علیھم سنین کسني یوسف۔ فلاں کی جگہ اس شخص کا یا اس قوم کا نام لے جس پر بد دعا کرنا منظور ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Qunut used to be recited in the Maghrib and the Fajr prayers.