باب: قحط کے وقت لوگ امام سے پانی کی دعا کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: Request of the people to the Imam to offer the Istisqa' prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1010.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ کی یہ عادت تھی کہ جب لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوتے تو حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ سے دعائے استسقاء کی اپیل کرتے اور اللہ کے حضور یوں دعا کرتے: اے اللہ! پہلے ہم اپنے نبی ﷺ سے دعائے استسقاء کی اپیل کیا کرتے تھے تو (ان کی دعا کے نتیجے میں) تو بارش برسا دیتا تھا۔ اب ہم تیرے نبی ﷺ کے چچا (کی دعا) کے ذریعے سے بارش کی التجا کرتے ہیں، تو (اب بھی رحم فر کر) بارش برسا دے۔ راوی کہتا ہے کہ پھر بارش برسنے لگتی تھی۔
تشریح:
(1) مصنف عبدالرزاق میں مذکورہ حدیث بایں الفاظ مروی ہے کہ حضرت عمر ؓ ایک دفعہ عیدگاہ میں دعائے استسقاء کے لیے تشریف لے گئے اور حضرت عباس ؓ سے فرمایا آپ اٹھیں اور بارانِ رحمت کی دعا کریں۔ حضرت عباس ؓ نے دعائے استسقاء کی۔ (2) امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ پیش کردہ حدیث سے اس کے کسی طریق کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو عنوان کے مطابق ہوتا ہے۔ (فتح الباري:639/2) (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زندہ بزرگ سے بارش کے لیے دعا کی اپیل کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، نیز اس حقیقت کا بھی پتہ چلا کہ ہمارے اسلاف مردوں کو وسیلہ بنا کر دعا نہیں کرتے تھے، کیونکہ ایسا کرنا ایک غیر شرعی کام اور ناجائز وسیلہ ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وسیلے کی دو اقسام ہیں: ٭ وسیلۂ جائز۔ ٭ وسیلۂ ممنوع۔ وسیلۂ جائز کی تین صورتیں ہیں: ٭ اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی صفات کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرنا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا﴾’’اللہ کے تمام نام اچھے ہیں تم اسے اچھے ناموں سے پکارو۔‘‘(الأعراف180:7) ٭ نیک اعمال کا واسطہ دے کر اللہ سے سوال کرنا، جیسا کہ غار والوں کا قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو انہیں وہاں سے نجات مل گئی۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2215) ٭ کسی زندہ بزرگ سے دعا کی اپیل کرنا، جیسے حضرت عمر ؓ نے حضرت عباس ؓ کو دعائے استسقاء کے لیے کہا تھا۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ کا وسیلہ استعمال نہیں کیا۔ وسیلۂ ممنوع یہ ہے کہ فوت شدگان کو پکارنا یا انہیں حاجت روا خیال کرنا، جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ ایسا کرنا شرک اکبر ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے مقام یا جاہ کا وسیلہ بھی جائز نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
995
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1010
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1010
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1010
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ کی یہ عادت تھی کہ جب لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوتے تو حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ سے دعائے استسقاء کی اپیل کرتے اور اللہ کے حضور یوں دعا کرتے: اے اللہ! پہلے ہم اپنے نبی ﷺ سے دعائے استسقاء کی اپیل کیا کرتے تھے تو (ان کی دعا کے نتیجے میں) تو بارش برسا دیتا تھا۔ اب ہم تیرے نبی ﷺ کے چچا (کی دعا) کے ذریعے سے بارش کی التجا کرتے ہیں، تو (اب بھی رحم فر کر) بارش برسا دے۔ راوی کہتا ہے کہ پھر بارش برسنے لگتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) مصنف عبدالرزاق میں مذکورہ حدیث بایں الفاظ مروی ہے کہ حضرت عمر ؓ ایک دفعہ عیدگاہ میں دعائے استسقاء کے لیے تشریف لے گئے اور حضرت عباس ؓ سے فرمایا آپ اٹھیں اور بارانِ رحمت کی دعا کریں۔ حضرت عباس ؓ نے دعائے استسقاء کی۔ (2) امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ پیش کردہ حدیث سے اس کے کسی طریق کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو عنوان کے مطابق ہوتا ہے۔ (فتح الباري:639/2) (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زندہ بزرگ سے بارش کے لیے دعا کی اپیل کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، نیز اس حقیقت کا بھی پتہ چلا کہ ہمارے اسلاف مردوں کو وسیلہ بنا کر دعا نہیں کرتے تھے، کیونکہ ایسا کرنا ایک غیر شرعی کام اور ناجائز وسیلہ ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وسیلے کی دو اقسام ہیں: ٭ وسیلۂ جائز۔ ٭ وسیلۂ ممنوع۔ وسیلۂ جائز کی تین صورتیں ہیں: ٭ اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی صفات کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرنا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا﴾’’اللہ کے تمام نام اچھے ہیں تم اسے اچھے ناموں سے پکارو۔‘‘(الأعراف180:7) ٭ نیک اعمال کا واسطہ دے کر اللہ سے سوال کرنا، جیسا کہ غار والوں کا قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو انہیں وہاں سے نجات مل گئی۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2215) ٭ کسی زندہ بزرگ سے دعا کی اپیل کرنا، جیسے حضرت عمر ؓ نے حضرت عباس ؓ کو دعائے استسقاء کے لیے کہا تھا۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ کا وسیلہ استعمال نہیں کیا۔ وسیلۂ ممنوع یہ ہے کہ فوت شدگان کو پکارنا یا انہیں حاجت روا خیال کرنا، جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ ایسا کرنا شرک اکبر ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے مقام یا جاہ کا وسیلہ بھی جائز نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبد اللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبد اللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبد اللہ بن انس ؓ نے، ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ جب کبھی حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر ؓ حضرت عباس بن عبد المطلب ؓ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی ﷺ کا وسیلہ لایا کر تے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم ﷺ کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس ؓ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔
حدیث حاشیہ:
خیر القرون میں دعا کا یہی طریقہ تھا اور سلف کا عمل بھی اسی پر رہا کہ مردوں کو وسیلہ بنا کر وہ دعا نہیں کرتے تھے کہ انہیں تو عام حالات میں دعا کا شعور بھی نہیں ہوتا بلکہ کسی زندہ مقرب بارگاہ ایزدی کو آگے بڑھا دیتے تھے۔ آگے بڑھ کر وہ دعا کرتے جاتے اور لوگ ان کی دعا پر آمین کہتے جاتے۔ حضرت عباس ؓ کے ذریعے اس طرح توسل کیاگیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر موجود یا مردوں کو وسیلہ بنانے کی کوئی صورت حضرت عمر ؓ کے سامنے نہیں تھی۔ سلف کا یہی معمول تھا۔ اور حضرت عمر ؓ کا طرز عمل اس مسئلہ میں بہت زیادہ واضح ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے حضرت عباس کی دعا بھی نقل کی ہے، آپ نے استسقاءکی دعا اس طرح کی تھی’’ اے اللہ! آفت اور مصیبت بغیر گناہ کے نازل نہیں ہوتی اور توبہ کے بغیر نہیں چھٹتی۔ آپ کے نبی کے یہاں میری قدر ومنزلت تھی اس لیے قوم مجھے آگے بڑھا کر تیری بارگاہ میں حاضر ہوئی ہے۔ یہ ہمارے ہاتھ ہیں جن سے ہم نے گناہ کئے تھے اور توبہ کے لیے ہماری پیشانیاں سجدہ ریز ہیں، باران رحمت سے سیراب کیجئے۔‘‘ دوسری روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا حضرت عباس ؓ کے ساتھ ایسا معاملہ تھا، جیسے بیٹے کاباپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ پس لوگو!رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کرو اور خدا کی بارگاہ میں ان کے چچا کو وسیلہ بناؤ۔ چنانچہ دعاءاستسقاء کے بعد اس زور کی بارش ہوئی کہ تاحد نظرپانی ہی پانی تھا۔ (ملخص)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Whenever drought threatened them, 'Umar bin Al-Khattab (RA), used to ask Al-Abbas bin 'Abdul Muttalib to invoke Allah for rain. He used to say, "O Allah! We used to ask our Prophet (ﷺ) to invoke you for rain, and you would bless us with rain, and now we ask his uncle to invoke you for rain. O Allah! Bless us with rain."(1) And so it would rain.