Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: Istisqa' in the main mosque (of the town))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1013.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد نبوی میں اس دروازے سے داخل ہوا جو منبر کے بالکل سامنے تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، آپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما۔ اے اللہ! ہمیں باران رحمت عطا فرما۔‘‘ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ: اللہ کی قسم! ہمیں دور دور تک آسمان پر کوئی چھوٹا یا بڑا بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا حویلی ہی حائل تھی (کہ ہم بادلوں کو نہ دیکھ سکتے ہوں)۔ اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح ایک بادل نمودار ہوا۔ جب وہ آسمان کے وسط میں آیا تو ادھر ادھر پھیل گیا، پھر وہ برسنے لگا: اللہ کی قسم! ہم نے ہفتہ بھر سورج نہ دیکھا۔ دوسرے جمعہ کو پھر اسی دروازے سے ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے، اس نے آپ کے سامنے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! مال تلف ہو گئے اور راستے بند ہو گئے ہیں، اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہم سے اس بارش کو روک لے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اب یہ بارش ہمارے اردگرد تو ہو لیکن ہم پر نہ برسے۔ اے اللہ! اسے ٹیلوں، پہاڑوں، میدانوں، وادیوں اور باغوں پر برسا۔‘‘راوی کہتے ہیں کہ بارش فورا بند ہو گئی اور ہم دھوپ میں چلنے پھرنے لگے۔ (راوی حدیث) شریک کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس ؓ سے پوچھا: یہ وہی پہلا شخص تھا؟ انہوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں۔
تشریح:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے صرف یہی مسئلہ ثابت کیا ہے کہ دعائے استسقاء کے لیے باہر کھلے میدان میں جانا، قبلہ رو ہونا اور چادر وغیرہ پلٹنا اگرچہ مشروع ہے، لیکن حالات و ظروف کے مطابق صرف دعا بھی کی جا سکتی ہے، نیز اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے کئی ایک معجزات کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ نے اللہ سے بارش کی دعا کی تو وہ فوراً قبول ہوئی اور بارش شروع ہو گئی۔ پھر کثرت باراں سے جب نقصان ہونے لگا تو آپ نے بارش ادھر ادھر برسنے کی دعا فرمائی تو وہ بھی فوراً قبول ہوئی، نیز اس میں رسول اللہ ﷺ نے دعا کا ادب بھی سکھایا ہے کہ مطلق طور پر بارش رکنے کی دعا نہیں فرمائی بلکہ اس قدر دعا کی جس سے نقصان زائل ہو جائے اور نفع باقی رہے۔ (فتح الباري:653/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
998
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1013
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1013
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1013
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے کوئی حدیث یا اثر بیان نہیں کیا۔ اس عنوان کے حسب حال حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف سے دین اسلام کے متعلق سرتابی دیکھی تو ان کے خلاف بددعا فرمائی، پھر وہ لوگ قحط میں مبتلا ہوئے۔ (صحیح البخاری،الاستسقاء،حدیث:1007) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انتقام کا کوڑا اس وقت حرکت میں آتا ہے جب اس کے احکام سے سرتابی کی جائے اور اس کی پابندیوں کی پروا نہ کی جائے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو قرآنی آیات ہیں ان میں اللہ کی طرف سے انتقام کا پورا ضابطہ بیان ہوا ہے جن کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے: "آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان سے صاف دھواں ظاہر ہو گا جو لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ المناک عذاب ہو گا۔ اے ہمارے رب! ہم سے اس عذاب کو دور کر دے، ہم ایمان لائے ہیں۔ اس وقت انہیں نصیحت کہاں کارگر ہو گی، حالانکہ ان کے پاس رسول مبین آ چکا، پھر انہوں نے اس سے روگردانی کی اور کہنے لگے: یہ تو سکھایا پڑھایا دیوانہ ہے۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے عذاب ہٹا دیں گے مگر تم پھر وہی کرو گے جو پہلے کرتے رہے۔ پھر جس دن ہم سخت گرفت کریں گے تو پھر انتقام لے کر رہیں گے۔" (الدخان10:44۔16) معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان کے تحت حدیث ابن مسعود سند کی معمولی تبدیلی کے ساتھ ذکر کرنا چاہتے تھے لیکن کسی رکاوٹ کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے۔ واللہ اعلم
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد نبوی میں اس دروازے سے داخل ہوا جو منبر کے بالکل سامنے تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، آپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما۔ اے اللہ! ہمیں باران رحمت عطا فرما۔‘‘ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ: اللہ کی قسم! ہمیں دور دور تک آسمان پر کوئی چھوٹا یا بڑا بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا حویلی ہی حائل تھی (کہ ہم بادلوں کو نہ دیکھ سکتے ہوں)۔ اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح ایک بادل نمودار ہوا۔ جب وہ آسمان کے وسط میں آیا تو ادھر ادھر پھیل گیا، پھر وہ برسنے لگا: اللہ کی قسم! ہم نے ہفتہ بھر سورج نہ دیکھا۔ دوسرے جمعہ کو پھر اسی دروازے سے ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے، اس نے آپ کے سامنے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! مال تلف ہو گئے اور راستے بند ہو گئے ہیں، اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہم سے اس بارش کو روک لے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اب یہ بارش ہمارے اردگرد تو ہو لیکن ہم پر نہ برسے۔ اے اللہ! اسے ٹیلوں، پہاڑوں، میدانوں، وادیوں اور باغوں پر برسا۔‘‘راوی کہتے ہیں کہ بارش فورا بند ہو گئی اور ہم دھوپ میں چلنے پھرنے لگے۔ (راوی حدیث) شریک کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس ؓ سے پوچھا: یہ وہی پہلا شخص تھا؟ انہوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے صرف یہی مسئلہ ثابت کیا ہے کہ دعائے استسقاء کے لیے باہر کھلے میدان میں جانا، قبلہ رو ہونا اور چادر وغیرہ پلٹنا اگرچہ مشروع ہے، لیکن حالات و ظروف کے مطابق صرف دعا بھی کی جا سکتی ہے، نیز اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے کئی ایک معجزات کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ نے اللہ سے بارش کی دعا کی تو وہ فوراً قبول ہوئی اور بارش شروع ہو گئی۔ پھر کثرت باراں سے جب نقصان ہونے لگا تو آپ نے بارش ادھر ادھر برسنے کی دعا فرمائی تو وہ بھی فوراً قبول ہوئی، نیز اس میں رسول اللہ ﷺ نے دعا کا ادب بھی سکھایا ہے کہ مطلق طور پر بارش رکنے کی دعا نہیں فرمائی بلکہ اس قدر دعا کی جس سے نقصان زائل ہو جائے اور نفع باقی رہے۔ (فتح الباري:653/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مرحوم بیکندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمرنے بیان کیا کہ انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا آپ نے ایک شخص (کعب بن مرہ یا ابوسفیان) کا ذکر کیا جو منبر کے سامنے والے دروازے سے جمعہ کے دن مسجد نبوی میں آیا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ ﷺ سے کہا یا رسول اللہ! (بارش نہ ہونے سے) جانور مر گئے اور راستے بند ہو گئے آپ اللہ تعالی سے بارش کی دعا فرمائیے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ کہتے ہی ہاتھ اٹھا دیئے آپ نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ انس ؓ نے کہا بخدا کہیں دور دور تک آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑانظر نہیں آتا تھا اور نہ کوئی اور چیز (ہوا وغیرہ جس سے معلوم ہو کہ بارش آئے گی) اور ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی مکان بھی نہ تھا (کہ ہم بادل ہونے کے باوجود نہ دیکھ سکتے ہوں) پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کے برابر بادل نمودار ہوا اور بیچ آسمان تک پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور بارش شروع ہو گئی، خدا کی قسم ہم نے سورج ایک ہفتہ تک نہیں دیکھا۔ پھر ایک شخص دوسرے جمعہ کو اسی دروازے سے آیا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس شخص نے پھر آپ کو کھڑے کھڑے ہی مخاطب کیا کہ یا رسول اللہ! ( بارش کی کثرت سے ) مال ومنال پر تباہی آگئی اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ بارش روک دے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ یا اللہ اب ہمارے اردگرد بارش برسا ہم سے اسے روک دے۔ ٹیلوں پہاڑوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔ انہوں نے کہا کہ اس دعا سے بارش ختم ہو گئی اور ہم نکلے تو دھوپ نکل چکی تھی۔ شریک نے کہا کہ میں نے انس ؓ سے پوچھا کہ یہ وہی پہلا شخص تھا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔
حدیث حاشیہ:
سلع مدینہ کا پہاڑ۔مطلب یہ کہ کسی بلند مکان یاگھر کی آڑ بھی نہ تھی کہ ابرہو اور ہم اسے نہ دیکھ سکیں بلکہ آسمان شیشے کی طرح صاف تھا، برسات کا کوئی نشان نہ تھا۔ اس حدیث سے حضرت امام ؒ نے یہ ثابت فرمایا کہ جمعہ میں بھی استسقاء یعنی پانی کی دعا مانگنا درست ہے، نیز اس حدیث سے کئی ایک معجزات نبوی کا ثبو ت ملتا ہے کہ آپ نے اللہ پاک سے بارش کے لیے دعا فرمائی تو وہ فوراً قبول ہوئی اور بارش شروع ہو گئی۔ پھر جب کثرت باراں سے نقصان شروع ہوا تو آپ نے بارش بند ہونے کی دعا فرمائی اور وہ بھی فوراًقبول ہوئی۔ اس سے آپ کے عند اللہ درجہ قبولیت وصداقت پر روشنی پڑتی ہے۔ صلی اللہ علیه وسلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sharik bin 'Abdullah bin Abi Namir (RA): I heard Anas bin Malik (RA) saying, "On a Friday a person entered the main Mosque through the gate facing the pulpit while Allah's Apostle (ﷺ) was delivering the Khutba. The man stood in front of Allah's Apostle (ﷺ) and said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! The livestock are dying and the roads are cut off; so please pray to Allah for rain.' “ Anas (RA) added, "Allah's Apostle (ﷺ) raised both his hands and said, 'O Allah! Bless us with rain! O Allah! Bless us with rain! O Allah! Bless us with rain!' " Anas (RA) added, "By Allah, we could not see any trace of cloud in the sky and there was no building or a house between us and (the mountains of) Sila." Anas (RA) added, "A heavy cloud like a shield appeared from behind it (i.e. Sila' Mountain). When it came in the middle of the sky, it spread and then rained." Anas (RA) further said, "By Allah! We could not see the sun for a week. Next Friday a person entered through the same gate and at that time Allah's Apostle (ﷺ) was delivering the Friday's Khutba. The man stood in front of him and said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! The livestock are dying and the roads are cut off, please pray to Allah to with-hold rain.' " Anas (RA) added, "Allah's Apostle (ﷺ) I raised both his hands and said, 'O Allah! Round about us and not on us. O Allah! On the plateaus, on the mountains, on the hills, in the valleys and on the places where trees grow.' So the rain stopped and we came out walking in the sun." Sharik asked Anas (RA) whether it was the same person who had asked for the rain (the last Friday). Anas (RA) replied that he did not know.