باب: جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت جب منہ قبلہ کی طرف نہ ہو پانی کے لیے دعا کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: To invoke Allah for rain in the Khutba of Friday facing a direction other than the Qiblah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1014.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں اس دروازے سے داخل ہوا جو دارقضاء کی طرف تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی تباہ ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: ’’اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہمیں باران رحمت عطا فرما۔ اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔‘‘ حضرت انس کہتے ہیں: اللہ کی قسم! ہمیں دور دور تک کوئی بارش کا چھوٹا یا بڑا ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا حویلی ہی حائل تھی۔ اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح ایک چھوٹا سا بادل نمودار ہوا۔ جب وہ آسمان کے درمیان آیا تو پھیل گیا، پھر برسنے لگا۔ اللہ کی قسم! ہم نے ہفتہ بھر سورج نہ دیکھا۔ پھر اگلے جمعے ایک شخص اسی دروازے سے داخل ہوا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ آپ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے، اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہم سے بارش روک لے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: ’’اے اللہ! اب یہ بارش ہمارے اردگرد تو ہو لیکن ہم پر نہ برسے۔ اے اللہ! ٹیلوں، پہاڑوں، وادیوں اور درختوں کے اُگنے کی جگہوں پر بارش برسا۔‘‘ حضرت انس فرماتے ہیں کہ بارش رک گئی اور ہم دھوپ میں چلنے لگے۔ شریک نے کہا: میں نے حضرت انس ؓ سے پوچھا: کیا یہ وہی پہلا شخص تھا؟ انہوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں۔
تشریح:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ بارش کی دعا کے لیے قبلہ رو ہونا ضروری نہیں بلکہ جیسے بھی ممکن ہو کی جا سکتی ہے، البتہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ایک اور بات کو ثابت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ بارش اللہ کی رحمت ہے بوقت قحط اس کے لیے دعا کرنا مشروع ہے، اسی طرح یہ بارش باعث زحمت بن جائے تو اسے روکنے کی دعا کرنا بھی جائز ہے۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے، نیز اس حدیث میں دار القضاء کا لفظ آیا ہے جس کے معنی عام طور پر عدالت کیے جاتے ہیں، حالانکہ یہ صحیح نہیں بلکہ دار القضاء اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس جگہ کو حضرت عمر ؓ کے ذمے قرض کے عوض فروخت کیا گیا تھا، یعنی ان کا قرض اتارنے کے لیے اسے بیچا گیا تھا۔ اسے پہلے دار قضائے دین عمر کہتے تھے، بعد ازاں دار القضاء کے نام سے مشہور ہو گیا۔ (فتح الباري:647/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
999
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1014
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1014
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1014
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ بارش کی دعا کے لیے باہر میدان میں جانا ضروری نہیں کیونکہ باہر نکلنے کا مقصد لوگوں کو بکثرت جمع کرنا ہے اور یہ مقصد جمعہ کے دن مسجد میں پورا ہو سکتا ہے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں اس دروازے سے داخل ہوا جو دارقضاء کی طرف تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی تباہ ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: ’’اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہمیں باران رحمت عطا فرما۔ اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔‘‘ حضرت انس کہتے ہیں: اللہ کی قسم! ہمیں دور دور تک کوئی بارش کا چھوٹا یا بڑا ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا حویلی ہی حائل تھی۔ اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح ایک چھوٹا سا بادل نمودار ہوا۔ جب وہ آسمان کے درمیان آیا تو پھیل گیا، پھر برسنے لگا۔ اللہ کی قسم! ہم نے ہفتہ بھر سورج نہ دیکھا۔ پھر اگلے جمعے ایک شخص اسی دروازے سے داخل ہوا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ آپ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے، اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہم سے بارش روک لے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: ’’اے اللہ! اب یہ بارش ہمارے اردگرد تو ہو لیکن ہم پر نہ برسے۔ اے اللہ! ٹیلوں، پہاڑوں، وادیوں اور درختوں کے اُگنے کی جگہوں پر بارش برسا۔‘‘ حضرت انس فرماتے ہیں کہ بارش رک گئی اور ہم دھوپ میں چلنے لگے۔ شریک نے کہا: میں نے حضرت انس ؓ سے پوچھا: کیا یہ وہی پہلا شخص تھا؟ انہوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ بارش کی دعا کے لیے قبلہ رو ہونا ضروری نہیں بلکہ جیسے بھی ممکن ہو کی جا سکتی ہے، البتہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ایک اور بات کو ثابت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ بارش اللہ کی رحمت ہے بوقت قحط اس کے لیے دعا کرنا مشروع ہے، اسی طرح یہ بارش باعث زحمت بن جائے تو اسے روکنے کی دعا کرنا بھی جائز ہے۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے، نیز اس حدیث میں دار القضاء کا لفظ آیا ہے جس کے معنی عام طور پر عدالت کیے جاتے ہیں، حالانکہ یہ صحیح نہیں بلکہ دار القضاء اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس جگہ کو حضرت عمر ؓ کے ذمے قرض کے عوض فروخت کیا گیا تھا، یعنی ان کا قرض اتارنے کے لیے اسے بیچا گیا تھا۔ اسے پہلے دار قضائے دین عمر کہتے تھے، بعد ازاں دار القضاء کے نام سے مشہور ہو گیا۔ (فتح الباري:647/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شریک نے بیان کیا، ان سے حضرت انس بن مالک ؓ نے کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا۔ اب جہاں دار القضاء ہے، اسی طرف کے دروازے سے وہ آیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کیا کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! جانور مر گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ ہم پر پانی برسائے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اے اللہ! ہم پر پانی برسا۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ انس ؓ نے کہا خدا کی قسم آسمان پر بادل کا کہیں نشان بھی نہ تھا اور ہمارے اور سلع پہاڑ کے بیچ میں مکانات بھی نہیں تھے، اتنے میں پہاڑ کے پیچھے سے بادل نمودار ہوا ڈھال کی طرح اور آسمان کے بیچ میں پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور برسنے لگا۔ خدا کی قسم ہم نے ایک ہفتہ تک سورج نہیں دیکھا۔ پھر دوسرے جمعہ کو ایک شخص اسی دروازے سے داخل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے، اس لیے اس نے کھڑے کھڑے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! (کثرت بارش سے) جانور تباہ ہو گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ بارش بند ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اے اللہ! ہمارے اطراف میں بارش برسا (جہاں ضرورت ہے) ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔ چنانچہ بارش کا سلسلہ بند ہو گیا اور ہم باہر آئے تو دھوپ نکل چکی تھی۔ شریک نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے دریافت کیا کہ کیایہ پہلا ہی شخص تھا؟ انہوں نے جواب دیا مجھے معلوم نہیں۔
حدیث حاشیہ:
سلع مدینہ کی مشہور پہاڑی ہے ادھر ہی سمندر تھا۔ راوی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بادل کا کہیں نام ونشان بھی نہیں تھا۔ سلع کی طرف بادل کا امکان ہو سکتا تھا۔ لیکن اس طرف بھی بادل نہیں تھا۔ کیونکہ پہاڑی صاف نظر آرہی تھی درمیان میں مکانات وغیرہ بھی نہیں تھے اگر بادل ہوتے تو ضرور نظر آتے اور حضور اکر م ﷺ کی دعا کے بعد بادل ادھر ہی سے آئے۔ دار القضاء ایک مکان تھا جو حضرت عمر ؓ نے بنوایا تھا۔ جب حضرت عمر کا انتقال ہونے لگا تو آپ نے وصیت فرمائی کہ یہ مکان بیچ کر میرا قرض ادا کردیا جائے جو بیت المال سے میں نے لیا ہے۔ آپ کے صاحبزادے عبد اللہ ؓ نے اسے حضرت معاویہ کے ہاتھ بیچ کر آپ کا قرض ادا کر دیا، اس وجہ سے اس گھر کو دار القضاء کہنے لگے، یعنی وہ مکان جس سے قرض ادا کیا گیا، یہ حال تھا مسلمانوں کے خلیفہ کا کہ دنیا سے رخصتی کے وقت ان کے پاس کوئی سرمایہ نہ تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sharik (RA): Anas bin Malik (RA) said, "A person entered the Mosque on a Friday through the gate facing the Daril-Qada' and Allah's Apostle (ﷺ) was standing delivering the Khutba (sermon). The man stood in front of Allah's Apostle (ﷺ) and said, 'O Allah's Apostle, livestock are dying and the roads are cut off; please pray to Allah for rain.' So Allah's Apostle (ﷺ) raised both his hands and said, 'O Allah! Bless us with rain. O Allah! Bless us with rain. O Allah! Bless us with rain!" Anas (RA) added, "By Allah, there were no clouds in the sky and there was no house or building between us and the mountain of Silas'. Then a big cloud like a shield appeared from behind it (i.e. Silas Mountain) and when it came in the middle of the sky, it spread and then rained. By Allah! We could not see the sun for a week. The next Friday, a person entered through the same gate and Allah's Apostle (ﷺ) was delivering the Friday Khutba and the man stood in front of him and said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! The livestock are dying and the roads are cut off; please pray to Allah to withhold rain.' “ Anas (RA) added, "Allah's Apostle (ﷺ) raised both his hands and said, 'O Allah! Round about us and not on us. O Allah!' On the plateaus, on the mountains, on the hills, in the valleys and on the places where trees grow.' “ Anas (RA) added, "The rain stopped and we came out, walking in the sun." Sharik asked Anas (RA) whether it was the same person who had asked for rain the previous Friday. Anas (RA) replied that he did not know.