باب: پانی کی دعا کرنے میں جمعہ کی نماز کو کافی سمجھنا (یعنی علیحدہ استسقاء کی نماز نہ پڑھنا اور اس کی نیت کرنا یہ بھی استسقاء کی ایک شکل ہے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: Whoever To invoke Allah for rain in the Jumu'ah prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1016.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: مویشی ہلاک ہونے لگے اور راستے مسدود ہو گئے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے بارش کی دعا کی تو دوسرے جمعہ تک ہم پر بارش ہوتی رہی پھر کوئی شخص آیا اور کہنے لگا کہ (بارش کی وجہ سے) مکانات گرنے لگے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، اللہ سے دعا کریں کہ وہ بارش روک لے۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ٹیلوں، پہاڑوں، وادیوں اور باغوں پر بارش برسا۔‘‘ چنانچہ مدینہ منورہ سے کپڑا پھٹنے کی طرح بادل چھٹ گئے۔
تشریح:
بارش کے لیے دعا کے مختلف طریقے ہیں جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ اس کے لیے نماز جمعہ پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے، الگ سے نماز کا اہتمام ضروری نہیں۔ ہاں! اگر باہر میدان میں جائیں تو پھر الگ نماز کا اہتمام ضروری ہے۔ بہرحال یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتی جو استسقاء کے لیے نماز کی مشروعیت کے قائل نہیں۔ (فتح الباری:665/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1001
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1016
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1016
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1016
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: مویشی ہلاک ہونے لگے اور راستے مسدود ہو گئے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے بارش کی دعا کی تو دوسرے جمعہ تک ہم پر بارش ہوتی رہی پھر کوئی شخص آیا اور کہنے لگا کہ (بارش کی وجہ سے) مکانات گرنے لگے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، اللہ سے دعا کریں کہ وہ بارش روک لے۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ٹیلوں، پہاڑوں، وادیوں اور باغوں پر بارش برسا۔‘‘ چنانچہ مدینہ منورہ سے کپڑا پھٹنے کی طرح بادل چھٹ گئے۔
حدیث حاشیہ:
بارش کے لیے دعا کے مختلف طریقے ہیں جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ اس کے لیے نماز جمعہ پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے، الگ سے نماز کا اہتمام ضروری نہیں۔ ہاں! اگر باہر میدان میں جائیں تو پھر الگ نماز کا اہتمام ضروری ہے۔ بہرحال یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتی جو استسقاء کے لیے نماز کی مشروعیت کے قائل نہیں۔ (فتح الباری:665/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر نے، ان کو انس ؓ نے بتلایا کہ ایک آدمی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جانور ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہوگئے۔ آپ نے دعا کی اور ایک ہفتہ تک بارش ہوتی رہی پھر ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ (بارش کی کثرت سے) گھر گر گئے راستے بند ہو گئے۔ چنانچہ آپ نے پھر کھڑے ہو کر دعا کی کہ اے اللہ! بارش ٹیلوں، پہاڑوں، وادیوں اور باغوں میں برسا (دعا کے نتیجہ میں) بادل مدینہ سے اس طرح پھٹ گئے۔ جیسے کپڑا پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): A man came to the Prophet (ﷺ) and said, "Livestock are destroyed and the roads are cut off." So Allah's Apostle (ﷺ) invoked Allah for rain and it rained from that Friday till the next Friday. The same person came again and said, "Houses have collapsed, roads are cut off, and the livestock are destroyed. Please pray to Allah to withhold the rain." Allah's Apostle (ﷺ) (stood up and) said, "O Allah! (Let it rain) on the plateaus, on the hills, in the valleys and over the places where trees grow." So the clouds cleared away from Madinah as clothes are taken off .