باب: جب لوگ امام سے دعائے استسقاء کی درخواست کریں تو رد نہ کرئے۔
)
Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: If the people request the Imam to invoke Allah for rain, the Imam should not refuse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1019.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مویشی تباہ اور راستے بند ہو گئے ہیں، آپ اللہ سے بارش کی دعا فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ سے دعا فرمائی۔ اس کے نتیجے میں اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مکانات منہدم ہو گئے، راستے ٹوٹ پھوٹ گئے اور مویشی تباہ ہو گئے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! پہاڑوں کی چوٹیوں، ریت کے ٹیلوں، ندیوں اور باغوں پر بارش برسا۔‘‘ اس کے بعد بادل مدینہ سے اس طرح چھٹ گیا جس طرح کپڑا پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔
تشریح:
امام بخاری ؒ نے پہلے عنوان قائم کیا تھا: (باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا)’’قحط کے زمانے میں لوگوں کا امام سے بارانِ رحمت کے لیے دعا کی اپیل کرنا۔‘‘ ان دونوں عناوین میں فرق یہ ہے کہ پہلے عنوان میں لوگوں کو ان کی ذمہ داری سے آگاہ کیا گیا تھا کہ وہ ایسے حالات میں امام سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کریں، جبکہ اس باب میں امام کی ذمہ داری بتائی گئی ہے کہ وہ ان کی اپیل مسترد نہ کرے بلکہ ہر وہ کام جس میں رعایا کا فائدہ ہو اس کی تکمیل کرے کیونکہ رعایا کی حفاظت امام پر لازم ہے اور قیامت کے دن اس سے اس کے متعلق باز پرس ہو گی۔ (فتح الباري:557/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1004
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1019
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1019
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1019
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مویشی تباہ اور راستے بند ہو گئے ہیں، آپ اللہ سے بارش کی دعا فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ سے دعا فرمائی۔ اس کے نتیجے میں اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مکانات منہدم ہو گئے، راستے ٹوٹ پھوٹ گئے اور مویشی تباہ ہو گئے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! پہاڑوں کی چوٹیوں، ریت کے ٹیلوں، ندیوں اور باغوں پر بارش برسا۔‘‘ اس کے بعد بادل مدینہ سے اس طرح چھٹ گیا جس طرح کپڑا پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے پہلے عنوان قائم کیا تھا: (باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا)’’قحط کے زمانے میں لوگوں کا امام سے بارانِ رحمت کے لیے دعا کی اپیل کرنا۔‘‘ ان دونوں عناوین میں فرق یہ ہے کہ پہلے عنوان میں لوگوں کو ان کی ذمہ داری سے آگاہ کیا گیا تھا کہ وہ ایسے حالات میں امام سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کریں، جبکہ اس باب میں امام کی ذمہ داری بتائی گئی ہے کہ وہ ان کی اپیل مسترد نہ کرے بلکہ ہر وہ کام جس میں رعایا کا فائدہ ہو اس کی تکمیل کرے کیونکہ رعایا کی حفاظت امام پر لازم ہے اور قیامت کے دن اس سے اس کے متعلق باز پرس ہو گی۔ (فتح الباري:557/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک ؓ نے شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر کے واسطے سے خبر دی اور انہیں انس بن مالک ؓ نے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا یا رسول اللہ! (قحط سے) جانور ہلاک ہوگئے اور راستے بند، اللہ سے دعا کیجئے۔ چنا نچہ آپ نے دعا کی اور ایک جمعہ سے اگلے جمعہ تک ایک ہفتہ بارش ہوتی رہی۔ پھر ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (بارش کی کثرت سے) راستے بند ہوگئے اور مویشی ہلاک ہوگئے۔ اب رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا کی کہ اے اللہ! بارش کارخ پہاڑوں ٹیلوں وادیوں اور باغات کی طرف موڑ دے، چنانچہ بادل مدینہ سے اس طرح چھٹ گیا جیسے کپڑا پھٹ جایا کرتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA) A man came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Livestock are destroyed and the roads are cut off; so please invoke Allah." So Allah's Apostle (ﷺ) prayed for rain and it rained from that Friday till the next Friday. Then a man came to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! The houses have collapsed, roads are cut off and the livestock are destroyed." So Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Allah! (Let it rain) on the tops of the mountains, on the plateaus, in the valleys and over the places where trees grow." So the clouds cleared away from Madinah as clothes are taken off.