باب: جب بارش حد سے زیادہ ہو تو اس بات کی دعا کہ ہمارے یہاں بارش بند ہو جائے اور اردگرد برسے۔
)
Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: To say, "Around us and not on us." when it rains excessively)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1021.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو کچھ لوگ اٹھ کر بول پڑے۔ انہوں نے فریاد کی: اللہ کے رسول! بارش نہیں ہو رہی، درخت پیلے ہو گئے اور مویشی مرنے لگے، اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ آپ نے دو مرتبہ فرمایا: ’’اے اللہ! ہمیں سیراب فرما۔‘‘ اللہ کی قسم! ہمیں آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی نہیں دیتا تھا کہ اچانک ابر نمودار ہوا اور برسنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ منبر سے اترے اور نماز پڑھی، پھر واپس گھر کو لوٹے یہ بارش اگلے جمعے تک برستی رہی۔ دوسرے جمعہ جب نبی ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو کچھ لوگ پھر بلند آواز سے بولے کہ مکانات گر گئے اور راستے بند ہو گئے، آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ اس بارش کو ہم سے روک دے۔ نبی ﷺ مسکرائے اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہمارے اردگرد بارش ہو، ہم پر نہ ہو۔‘‘ اس کے بعد مدینے سے بادل چھٹ گئے۔ اس کے آس پاس بارش ہوتی رہی۔ مدینے میں بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں برس رہا تھا۔ میں نے مدینہ منورہ کو دیکھا کہ تاج کی طرح اس کے اردگرد بادل تھے اور یہ درمیان میں تھا۔
تشریح:
(1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ کثرت باراں کے وقت جامع اور پرحکمت الفاظ سے دعا کرنی چاہیے کیونکہ بارش اللہ کی رحمت ہے، اسے مطلق طور پر روک دینے کی دعا کرنا مناسب نہیں۔ مناسب یہ ہے کہ اس کے منافع حاصل کرنے کے لیے اور اس کے نقصان سے بچنے کے لیے دعا کی جائے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت ایسے حالات میں دعا کا ادب بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمائے ہوئے الفاظ سے دعا کی جائے، نیز ایسے حالات میں نماز کے اہتمام اور چادر پلٹنے کی ضرورت نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1006
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1021
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1021
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1021
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو کچھ لوگ اٹھ کر بول پڑے۔ انہوں نے فریاد کی: اللہ کے رسول! بارش نہیں ہو رہی، درخت پیلے ہو گئے اور مویشی مرنے لگے، اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ آپ نے دو مرتبہ فرمایا: ’’اے اللہ! ہمیں سیراب فرما۔‘‘ اللہ کی قسم! ہمیں آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی نہیں دیتا تھا کہ اچانک ابر نمودار ہوا اور برسنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ منبر سے اترے اور نماز پڑھی، پھر واپس گھر کو لوٹے یہ بارش اگلے جمعے تک برستی رہی۔ دوسرے جمعہ جب نبی ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو کچھ لوگ پھر بلند آواز سے بولے کہ مکانات گر گئے اور راستے بند ہو گئے، آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ اس بارش کو ہم سے روک دے۔ نبی ﷺ مسکرائے اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہمارے اردگرد بارش ہو، ہم پر نہ ہو۔‘‘ اس کے بعد مدینے سے بادل چھٹ گئے۔ اس کے آس پاس بارش ہوتی رہی۔ مدینے میں بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں برس رہا تھا۔ میں نے مدینہ منورہ کو دیکھا کہ تاج کی طرح اس کے اردگرد بادل تھے اور یہ درمیان میں تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ کثرت باراں کے وقت جامع اور پرحکمت الفاظ سے دعا کرنی چاہیے کیونکہ بارش اللہ کی رحمت ہے، اسے مطلق طور پر روک دینے کی دعا کرنا مناسب نہیں۔ مناسب یہ ہے کہ اس کے منافع حاصل کرنے کے لیے اور اس کے نقصان سے بچنے کے لیے دعا کی جائے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت ایسے حالات میں دعا کا ادب بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمائے ہوئے الفاظ سے دعا کی جائے، نیز ایسے حالات میں نماز کے اہتمام اور چادر پلٹنے کی ضرورت نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے عبید اللہ عمری سے بیان کیا، ان سے ثابت نے، ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں لوگوں نے کھڑے ہوکر غل مچایا، کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! بارش کے نام بوند بھی نہیں درخت سرخ ہوچکے (یعنی تمام پتے خشک ہو گئے) اور جانور تباہ ہو رہے ہیں، آپ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ ہمیں سیراب کرے۔ آپ نے دعا کی اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ دو مرتبہ آپ نے اس طرح کہا، قسم خدا کی اس وقت آسمان پر بادل کہیں دور دور نظر نہیں آتا تھا لیکن دعا کے بعد اچانک ایک بادل آیا اور بارش شروع ہو گئی۔ آپ منبر سے اتر ے اور نماز پڑھائی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو بارش ہو رہی تھی اور دوسرے جمعہ تک بارش برابر ہوتی رہی پھر جب حضور اکرم ﷺ دوسرے جمعہ میں خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے بتایا کہ مکانات منہدم ہو گئے اور راستے بند ہو گئے، اللہ سے دعا کیجئے کہ بارش بند کر دے۔ اس پر نبی کریم ﷺ مسکرائے اور دعا کی اے اللہ! ہمارے اطراف میں اب بارش برسا، مدینہ میں اس کا سلسلہ بند کر۔ آپ کی دعا سے مدینہ سے بادل چھٹ گئے اور بارش ہمارے ارد گرد ہونے لگی۔ اس شان سے کہ اب مدینہ میں ایک بوند بھی نہ پڑتی تھی میں نے مدینہ کو دیکھا ابر تاج کی طرح گردا گرد تھا اور مدینہ اس کے بیچ میں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) I was delivering the Khutba (sermon) on a Friday when the people stood up shouted and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! There is no rain (drought), the trees have dried and the livestock are destroyed; please pray to Allah for rain." So Allah's Apostle (ﷺ) said twice, "O Allah! Bless us with rain." By Allah, there was no trace of cloud in the sky and suddenly the sky became overcast with clouds and it started raining. The Prophet (ﷺ) came down the pulpit and offered the prayer. When he came back from the prayer (to his house) it was raining and it rained continuously till the next Friday. When the Prophet (ﷺ) started delivering the Friday Khutba (sermon), the people started shouting and said to him, "The houses have collapsed and the roads are cut off; so please pray to Allah to withhold the rain." So the Prophet (ﷺ) smiled and said, "O Allah! Round about us and not on us." So the sky became clear over Madinah but it kept on raining over the outskirts (of Medina) and not a single drop of rain fell over Median. I looked towards the sky which was as bright and clear as a crown.