باب:استسقاء میں امام کے ساتھ لوگوں کا بھی ہاتھ اٹھانا
)
Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: While offering the Istisqa' prayer, people should raise hands along with the Imam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1029.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مویشی ہلاک، اہل و عیال تباہ ہو گئے اور لوگ مرنے لگے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے، لوگ بھی آپ کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ ابھی ہم مسجد سے باہر نہیں نکلے تھے کہ بارش شروع ہو گئی، پھر یہ بارش دوسرے جمعہ تک جاری رہی۔ تب ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مسافر تنگ آ گئے اور راستے بند ہو گئے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1013.91
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1029.91
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1029
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1029
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مویشی ہلاک، اہل و عیال تباہ ہو گئے اور لوگ مرنے لگے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے، لوگ بھی آپ کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ ابھی ہم مسجد سے باہر نہیں نکلے تھے کہ بارش شروع ہو گئی، پھر یہ بارش دوسرے جمعہ تک جاری رہی۔ تب ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مسافر تنگ آ گئے اور راستے بند ہو گئے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ایوب بن سلیمان نے کہا کہ مجھ سے ابو بکر بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے سلیمان بن بلال سے بیان کیاکہ یحییٰ بن سعید نے کہا کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے سنا انہوںنے کہا کہ ایک بدوی (گاؤں کا رہنے والا) جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! بھوک سے مویشی تباہ ہو گئے، اہل وعیال اور تمام لوگ مر رہے ہیں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے ہاتھ اٹھائے، اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ اپنے ہاتھ اٹھائے، دعا کرنے لگے، انس ؓ نے بیان کیا کہ ابھی ہم مسجد سے باہر نکلے بھی نہ تھے کہ بارش شروع ہو گئی اور ایک ہفتہ برابر بارش ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ میں پھر وہی شخص آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! (بارش بہت ہونے سے) مسافر گھبرا گئے اور راستے بند ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A bedouin came to Allah's Messenger (ﷺ) on a Friday and said, "O Allah's Messenger ! The livestock, the offspring, and the people have perished." So, Allah's Messenger (ﷺ) raised both his hands invoking Allah (for rain) and the people too raised their hands with Allah's Messenger (ﷺ) invoking Allah (for rain). We had not left the mosque when it started raining. It rained till the next Friday when the same man came to Allah's Messenger (ﷺ) and said, "O Allah's Messenger! The travelers are compelled to postpone their journeys (because of excessive rain) and the roads are overflowed."