Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: The raising of both hands by the Imam during Istisqa' while invoking Allah for rain)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1031.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ بارش کی دعا کے علاوہ اور کسی موقع پر دعا کرتے وقت (زیادہ) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ اور بارش کی دعا میں اس قدر ہاتھ بلند کرتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آ جاتی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش کی دعا کرتے وقت امام کو مبالغے کی حد تک ہاتھ اونچے اٹھانے چاہئیں۔ نیز صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق بارش کی دعا کرتے وقت ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف کرنی چاہیے، چنانچہ امام نووی ؒ لکھتے ہیں کہ کسی مصیبت، وبا اور قحط وغیرہ کو رفع کرنے کے لیے دعا کریں تو ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف رکھیں اور اگر کسی چیز کے سوال اور اس کے حصول کی دعا کرنی ہو تو ہاتھوں کی ہتھیلیاں آسمان کی طرف کریں۔ یاد رہے کہ اس حدیث سے دیگر مقامات میں ہاتھ اٹھانے کی نفی ثابت نہیں ہوتی، خود امام بخاری ؒ نے کتاب الدعوات میں دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کا ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ حدیث انس میں ہاتھ نہ اٹھانے سے مبالغہ مقصود ہے مطلق طور پر نفی مراد نہیں۔ (صحیح البخاري، الدعوات، باب رفع الأیدي في الدعاء قبل حدیث:8341) (2) اس طرح دعا کرنے سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ حالات کو بدل دے اور بدحالی کی جگہ خوشحالی لے آئے جیسا کہ چادر پلٹنے میں ہوتا ہے۔ (فتح الباري:687/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1015
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1031
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1031
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1031
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ بارش کی دعا کے علاوہ اور کسی موقع پر دعا کرتے وقت (زیادہ) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ اور بارش کی دعا میں اس قدر ہاتھ بلند کرتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آ جاتی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش کی دعا کرتے وقت امام کو مبالغے کی حد تک ہاتھ اونچے اٹھانے چاہئیں۔ نیز صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق بارش کی دعا کرتے وقت ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف کرنی چاہیے، چنانچہ امام نووی ؒ لکھتے ہیں کہ کسی مصیبت، وبا اور قحط وغیرہ کو رفع کرنے کے لیے دعا کریں تو ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف رکھیں اور اگر کسی چیز کے سوال اور اس کے حصول کی دعا کرنی ہو تو ہاتھوں کی ہتھیلیاں آسمان کی طرف کریں۔ یاد رہے کہ اس حدیث سے دیگر مقامات میں ہاتھ اٹھانے کی نفی ثابت نہیں ہوتی، خود امام بخاری ؒ نے کتاب الدعوات میں دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کا ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ حدیث انس میں ہاتھ نہ اٹھانے سے مبالغہ مقصود ہے مطلق طور پر نفی مراد نہیں۔ (صحیح البخاري، الدعوات، باب رفع الأیدي في الدعاء قبل حدیث:8341) (2) اس طرح دعا کرنے سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ حالات کو بدل دے اور بدحالی کی جگہ خوشحالی لے آئے جیسا کہ چادر پلٹنے میں ہوتا ہے۔ (فتح الباري:687/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان اور محمد بن ابراہیم بن عدی بن عروبہ نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ دعائے استسقاء کے سوا اور کسی دعا کے لیے ہاتھ (زیادہ) نہیں اٹھا تے تھے اور استسقاء میں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آجاتی۔
حدیث حاشیہ:
ابوداؤد کی مرسل روایتوں میں یہی حدیث اسی طرح ہے کہ ’’استسقاءکے سوا پوری طرح آپ کسی دعا میں بھی ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کی اس روایت میں ہاتھ اٹھانے کے انکار سے مراد یہ ہے کہ بمبالغہ ہاتھ نہیں اٹھاتے اس روایت سے یہ کسی بھی طرح ثابت نہیں ہو سکا کہ آپ دعاؤں میں ہاتھ ہی نہیں اٹھاتے تھے۔ خود امام بخاری ؒ نے کتاب الدعوات میں اس کے لیے ایک باب قائم کیا ہے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ استسقاءکی دعا میں آپ نے ہتھیلی کی پشت آسمان کی طرف کی اور شافعیہ نے کہا کہ قحط وغیرہ بلیات کے رفع کرنے کے لیے اس طرح دعا کرنا سنت ہے (قسطلاني) علامہ نووی فرماتے ہیں:هَذَا الْحَدِيثُ يُوهِمُ ظَاهِرُهُ أَنَّهُ لَمْ يرفع ص إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ وَلَيْسَ الْأَمْرُ كَذَلِكَ بَلْ قد ثبت رفع يديه ص فِي الدُّعَاءِ فِي مَوَاطِنَ غَيْرِ الِاسْتِسْقَاءِ وَهِيَ أَكْثَرُ مِنْ أَنْ تُحْصَرَ وَقَدْ جَمَعْتُ مِنْهَا نَحْوًا مِنْ ثَلَاثِينَ حَدِيثًا مِنَ الصَّحِيحَيْنِ أَوْ أحدهما وذكرتها فِي أَوَاخِرِ بَابِ صِفَةِ الصَّلَاةِ مِنْ شَرْحِ الْمُهَذَّبِ وَيُتَأَوَّلُ هَذَا الْحَدِيثُ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَرْفَعِ الرَّفْعَ الْبَلِيغَ بِحَيْثُ يُرَى بَيَاضُ إِبْطَيْهِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ أَوْ أَنَّ الْمُرَادَ لَمْ أَرَهُ رَفَعَ وَقَدْ رَآهُ غَيْرُهُ رَفَعَ فَيُقَدَّمُ الْمُثْبِتُونَ فِي مَوَاضِعَ كَثِيرَةٍ وَهُمْ جَمَاعَاتٌ عَلَى وَاحِدٍ لَمْ يَحْضُرْ ذَلِكَ وَلَا بُدَّ مِنْ تَأْوِيلِهِ لِمَا ذَكَرْنَاهُ وَاللَّهُ أَعْلَمُ۔(نووي، ج:1ص293)خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں اٹھانے سے مبالغہ کے ساتھ ہاتھ اٹھانا مراد ہے استسقاءکے علاوہ دیگر مقامات پر بھی ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ثابت ہے۔ میں نے اس بارے میں تیس احادیث جمع کی ہیں دیگر آنکہ حضرت انس ؓ نے صرف اپنی روایت کا ذکر کیا ہے جبکہ ان کے علاوہ بہت سے صحابہ سے یہ ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA) The Prophet (ﷺ) never raised his hands for any invocation except for that of Istisqa' and he used to raise them so much that the whiteness of his armpits became visible. (Note: It may be that Anas (RA) did not see the Prophet (ﷺ) raising his hands, but it is narrated that the Prophet (ﷺ) used to raise his hands for invocations other than Istisqa. See Hadith No. 807 & 808 and also see Hadith No. 612, Vol. 5).