باب: اس شخص کے بارے میں جو بارش میں قصداً اتنی دیر ٹھہرا کہ بارش سے اس کی داڑھی (بھیگ گئی اور اس) سے پانی بہنے لگا۔
)
Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: One who stood in the rain till the water started trickling down his beard)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1033.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ سخت قحط پڑا، چنانچہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اس دوران میں ایک دیہاتی کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی تباہ ہو گئے اور بچے بھوک سے مرنے لگے، آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) دونوں ہاتھ اٹھا لیے جبکہ اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ حضرت انس ؓ نے کہا کہ بادل ایسے اٹھا جیسے پہاڑ ہوتے ہیں۔ ابھی رسول اللہ ﷺ منبر سے اترے نہیں تھے کہ میں نے دیکھا بارش آپ کی داڑھی مبارک سے ٹپک رہی تھی۔ تمام دن بارش ہوتی رہی، کل، پرسوں اور ترسوں، بعد ازاں دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر وہی دیہاتی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مکانات گرنے لگے اور مویشی ڈوبنے لگے، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: ’’اے اللہ! ہمارے اردگرد بارش برسا، ہم پر نہ برسا۔‘‘ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ آسمان کی جس طرف اشارہ فرماتے ادھر سے بادل چھٹ جاتا حتی کہ مدینہ منورہ ڈھال کی طرح ہو گیا اور وادی قنات مہینہ بھر بہتی رہی۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ مدینے کے اطراف سے جو شخص بھی آتا وہ کثرت بارش کی خبر دیتا تھا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ایک روایت کی طرف اشارہ کر کے اس کی تائید فرمائی ہے، جسے حضرت انس ؓ نے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں: ہم ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بارش کی لپیٹ میں آ گئے۔ آپ نے اپنے بدن سے کپڑا ہٹا لیا حتی کہ آپ کے بدن پر بارش گرنے لگی۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ بارش اپنے رب کے حکم سے ابھی ابھی عالم قدس سے نازل شدہ ہے۔‘‘(صحیح مسلم، صلاة الاستسقاء، حدیث:2083 (898)) (2) روایت میں آپ ﷺ کی داڑھی مبارک پر بارش کا برسنا اتفاقی طور پر نہیں تھا بلکہ آپ نے قصداً ایسا کیا، وگرنہ جب مسجد کی چھت ٹپکی تھی تو آپ اسی وقت منبر سے اتر کر ایک طرف ہو سکتے تھے، لیکن آپ نے خطبہ جاری رکھا حتی کہ آپ کی داڑھی سے پانی ٹپکنے لگا۔ (فتح الباري:670/2) (3) واضح رہے کہ قحط میں مبتلا ہونے اور بارش کی دعا کرنے کے متعلق چار واقعات ہیں جو مختلف ادوار میں پیش آئے ہیں: ٭ ہجرت سے پہلے جب مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی پشت پر کسی مردار کی اوجھڑی رکھ دی تھی تو آپ نے قحط سالی کی بددعا کی، پھر ابو سفیان کی درخواست پر بارش کی دعا فرمائی۔ ٭ ایک واقعہ 4 ہجری میں پیش آیا جب آپ نے قبیلۂ مضر کے متعلق قحط سالی میں مبتلا ہونے کی بددعا کی تھی۔ یہ وہی قبیلہ ہے جو وفد عبدالقیس سے چھیڑ چھاڑ کرتا تھا۔ ٭ 6 ہجری میں آپ نے باہر جا کر باقاعدہ نماز اور دعا کا اہتمام فرمایا، اس میں چادر بھی پلٹی اور آسمان کی طرف الٹے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ ٭ غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد 9 ہجری میں خارجہ بن حصن کی درخواست پر جمعہ کے دن دورانِ خطبہ بارش کی دعا فرمائی جس کے نتیجے میں پورا ہفتہ بارش برستی رہی۔ مذکورہ حدیث میں یہی واقعہ بیان ہوا ہے۔ بہرحال یہ چار واقعات ہیں جنہیں راویانِ حدیث نے باہم خلط ملط کر دیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1017
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1033
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1033
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1033
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ سخت قحط پڑا، چنانچہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اس دوران میں ایک دیہاتی کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی تباہ ہو گئے اور بچے بھوک سے مرنے لگے، آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) دونوں ہاتھ اٹھا لیے جبکہ اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ حضرت انس ؓ نے کہا کہ بادل ایسے اٹھا جیسے پہاڑ ہوتے ہیں۔ ابھی رسول اللہ ﷺ منبر سے اترے نہیں تھے کہ میں نے دیکھا بارش آپ کی داڑھی مبارک سے ٹپک رہی تھی۔ تمام دن بارش ہوتی رہی، کل، پرسوں اور ترسوں، بعد ازاں دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر وہی دیہاتی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مکانات گرنے لگے اور مویشی ڈوبنے لگے، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: ’’اے اللہ! ہمارے اردگرد بارش برسا، ہم پر نہ برسا۔‘‘ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ آسمان کی جس طرف اشارہ فرماتے ادھر سے بادل چھٹ جاتا حتی کہ مدینہ منورہ ڈھال کی طرح ہو گیا اور وادی قنات مہینہ بھر بہتی رہی۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ مدینے کے اطراف سے جو شخص بھی آتا وہ کثرت بارش کی خبر دیتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ایک روایت کی طرف اشارہ کر کے اس کی تائید فرمائی ہے، جسے حضرت انس ؓ نے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں: ہم ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بارش کی لپیٹ میں آ گئے۔ آپ نے اپنے بدن سے کپڑا ہٹا لیا حتی کہ آپ کے بدن پر بارش گرنے لگی۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ بارش اپنے رب کے حکم سے ابھی ابھی عالم قدس سے نازل شدہ ہے۔‘‘(صحیح مسلم، صلاة الاستسقاء، حدیث:2083 (898)) (2) روایت میں آپ ﷺ کی داڑھی مبارک پر بارش کا برسنا اتفاقی طور پر نہیں تھا بلکہ آپ نے قصداً ایسا کیا، وگرنہ جب مسجد کی چھت ٹپکی تھی تو آپ اسی وقت منبر سے اتر کر ایک طرف ہو سکتے تھے، لیکن آپ نے خطبہ جاری رکھا حتی کہ آپ کی داڑھی سے پانی ٹپکنے لگا۔ (فتح الباري:670/2) (3) واضح رہے کہ قحط میں مبتلا ہونے اور بارش کی دعا کرنے کے متعلق چار واقعات ہیں جو مختلف ادوار میں پیش آئے ہیں: ٭ ہجرت سے پہلے جب مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی پشت پر کسی مردار کی اوجھڑی رکھ دی تھی تو آپ نے قحط سالی کی بددعا کی، پھر ابو سفیان کی درخواست پر بارش کی دعا فرمائی۔ ٭ ایک واقعہ 4 ہجری میں پیش آیا جب آپ نے قبیلۂ مضر کے متعلق قحط سالی میں مبتلا ہونے کی بددعا کی تھی۔ یہ وہی قبیلہ ہے جو وفد عبدالقیس سے چھیڑ چھاڑ کرتا تھا۔ ٭ 6 ہجری میں آپ نے باہر جا کر باقاعدہ نماز اور دعا کا اہتمام فرمایا، اس میں چادر بھی پلٹی اور آسمان کی طرف الٹے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ ٭ غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد 9 ہجری میں خارجہ بن حصن کی درخواست پر جمعہ کے دن دورانِ خطبہ بارش کی دعا فرمائی جس کے نتیجے میں پورا ہفتہ بارش برستی رہی۔ مذکورہ حدیث میں یہی واقعہ بیان ہوا ہے۔ بہرحال یہ چار واقعات ہیں جنہیں راویانِ حدیث نے باہم خلط ملط کر دیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی، کہا کہ ہم سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ انصاری نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لوگوں پر ایک دفعہ قحط پڑا۔ انہی دنوں آپ ﷺ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ! جانور مر گئے اور بال بچے فاقے پر فاقے کر ہے ہیں، اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ پانی برسائے۔ انس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ آسمان پر دور دور تک ابر کا پتہ تک نہیں تھا۔ لیکن (آپ کی دعا سے) پہاڑوں کے برابر بادل گرجتے ہوئے آ گئے ابھی حضور اکرم ﷺ منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ کی داڑھی سے بہہ رہا ہے۔ انس نے کہا کہ اس روز بارش دن بھر ہوتی رہی۔ دوسرے دن تیسرے دن، بھی اور برابر اسی طرح ہوتی رہی۔ اس طرح دوسرا جمعہ آگیا۔ پھر یہی بدوی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! (کثرت باراں سے) عمارتیں گر گئیں اور جانور ڈوب گئے، ہمارے لیے اللہ تعالی سے دعا کیجئے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا اور ہم پر نہ برسا۔ حضرت انس نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ اپنے ہاتھوں سے آسمان کی جس طرف بھی اشارہ کر دیتے ابر ادھر سے پھٹ جاتا، اب مدینہ حوض کی طرح بن چکا تھا اور اس کے بعد وادی قناۃ کا نالہ ایک مہینہ تک بہتا رہا۔ حضرت انس نے بیان کیا کہ اس کے بعد مدینہ کے ارد گرد سے جو بھی آیا اس نے خوب سیرابی کی خبر لائی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے باران رحمت کا پانی اپنی ریش مبارک پر بہایا۔ مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آپ نے بارش میں اپنا کپڑا کھول دیا اور یہ پانی اپنے جسد اطہر پر لگایا اور فرمایا کہ إنه حدیث عھد بربه۔ یہ پانی ابھی ابھی تازہ بتازہ اپنے پروردگار کے ہاں سے آیا ہے۔ معلوم ہوا کہ بارش کا پانی اس خیال سے جسم پر لگانا سنت نبوی ہے۔ اس حدیث سے خطبۃ الجمعہ میں بارش کے لیے دعا کرنا بھی ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): In the life-time of Allah's Apostle (ﷺ) the people were afflicted with a (famine) year. While the Prophet (ﷺ) was delivering the Khutba (sermon) on the pulpit on a Friday, a Bedouin stood up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! The livestock are dying and the families (offspring) are hungry: please pray to Allah to bless us with rain." Allah's Apostle (ﷺ) raised both his hands towards the sky and at that time there was not a trace of cloud in the sky. Then the clouds started gathering like mountains. Before he got down from the pulpit I saw rain-water trickling down his beard. It rained that day, the next day, the third day, the fourth day and till the next Friday, when the same Bedouin or some other person stood up (during the Friday Khutba) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! The houses have collapsed and the livestock are drowned. Please invoke Allah for us." So Allah's Apostle (ﷺ) raised both his hands and said, "O Allah! Around us and not on us." Whichever side the Prophet (ﷺ) directed his hand, the clouds dispersed from there till a hole (in the clouds) was formed over Medina. The valley of Qanat remained flowing (with water) for one month and none, came from outside who didn't talk about the abundant rain.