باب: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی «وتجعلون رزقكم أنكم تكذبون»۔
)
Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: "And instead for the provision He gives you, you deny")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یعنی تمہارا شکر یہی ہے کہ تم اللہ کو جھٹلاتے ہو (یعنی تمہارے حصہ میں جھٹلانے کے سوا اور کچھ آیا ہی نہیں) عبداللہ بن عباسؓ نے کہا کہ ہمارے رزق سے مراد شکر ہے۔
1038.
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حدیبیہ کے مقام پر ہمیں رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی جبکہ رات کو بارش ہو چکی تھی۔ نبی ﷺ نماز سے فراغت کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور دریافت کیا: ’’تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے اس وقت کیا فرمایا ہے؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’(رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ) کچھ میرے بندے مجھ پر ایمان لانے والے بنے اور کچھ نے میرے ساتھ کفر کیا، جنہوں نے کہا کہ ہم پر صرف اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے مینہ برسا ہے تو وہ مجھ پر ایمان لانے والے اور ستاروں سے کفر کرنے والے ہیں اور جنہوں نے کہا کہ فلاں ستارے کے باعث بارش ہوئی ہے وہ میرے ساتھ کفر کرنے والے اور ستاروں پر ایمان لانے والے ٹھہرے۔‘‘
تشریح:
(1) دور جاہلیت میں لوگ غیر اللہ کی طرف قدرتی کاموں کی نسبت کرتے تھے، بالخصوص بارش کے متعلق ان کا یہ عقیدہ تھا کہ کچھ مخصوص ستاروں کی وجہ سے بارش برستی ہے اور یہی ستارے ان کے رزق کا باعث ہیں۔ اس عقیدے میں صراحت کے ساتھ الوہیت باری تعالیٰ کی تکذیب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی طرف اس بارش کی نسبت سے منع کر دیا اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کا حکم دیا۔ اس بنا پر ستاروں کو بارش میں مؤثر حقیقی ماننا کفر ہے۔ اگر انہیں محض علامات ٹھہرایا جائے۔ جیسا کہ ٹھنڈی ہوا یا بادلوں کو علامت قرار دیا جاتا ہے تو اسے کفر سے تعبیر کرنا صحیح نہیں۔ حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے متعلقہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم اپنے رزق کا شکر یوں ادا کرتے ہو کہ اللہ کو جھٹلاتے ہو اور کہتے ہو کہ فلاں پخھتر (چاند کی منزل) اور فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے۔‘‘(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:3296) (2) واضح رہے کہ اس موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ملعون نے کہا تھا کہ شعریٰ ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسی وقت اس کی تردید کو مناسب خیال کیا۔ (فتح الباري:678/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1022
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1038
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1038
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1038
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
تم نے رزق کا شکریہ یہی ادا کیا کہ تم قرآن کی تکذیب کرتے رہو۔ حدیث میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بارش ہوئی تو لوگوں نے اس کے متعلق غلط قسم کے عقائد کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کے طور پر سورۂ واقعہ کی یہ آیات نازل فرمائیں۔ اس سے اس آیت کی مناسبت بھی کتاب الاستسقاء سے ظاہر ہو جاتی ہے۔ (فتح الباری:2/674)
یعنی تمہارا شکر یہی ہے کہ تم اللہ کو جھٹلاتے ہو (یعنی تمہارے حصہ میں جھٹلانے کے سوا اور کچھ آیا ہی نہیں) عبداللہ بن عباسؓ نے کہا کہ ہمارے رزق سے مراد شکر ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حدیبیہ کے مقام پر ہمیں رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی جبکہ رات کو بارش ہو چکی تھی۔ نبی ﷺ نماز سے فراغت کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور دریافت کیا: ’’تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے اس وقت کیا فرمایا ہے؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’(رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ) کچھ میرے بندے مجھ پر ایمان لانے والے بنے اور کچھ نے میرے ساتھ کفر کیا، جنہوں نے کہا کہ ہم پر صرف اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے مینہ برسا ہے تو وہ مجھ پر ایمان لانے والے اور ستاروں سے کفر کرنے والے ہیں اور جنہوں نے کہا کہ فلاں ستارے کے باعث بارش ہوئی ہے وہ میرے ساتھ کفر کرنے والے اور ستاروں پر ایمان لانے والے ٹھہرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) دور جاہلیت میں لوگ غیر اللہ کی طرف قدرتی کاموں کی نسبت کرتے تھے، بالخصوص بارش کے متعلق ان کا یہ عقیدہ تھا کہ کچھ مخصوص ستاروں کی وجہ سے بارش برستی ہے اور یہی ستارے ان کے رزق کا باعث ہیں۔ اس عقیدے میں صراحت کے ساتھ الوہیت باری تعالیٰ کی تکذیب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی طرف اس بارش کی نسبت سے منع کر دیا اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کا حکم دیا۔ اس بنا پر ستاروں کو بارش میں مؤثر حقیقی ماننا کفر ہے۔ اگر انہیں محض علامات ٹھہرایا جائے۔ جیسا کہ ٹھنڈی ہوا یا بادلوں کو علامت قرار دیا جاتا ہے تو اسے کفر سے تعبیر کرنا صحیح نہیں۔ حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے متعلقہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم اپنے رزق کا شکر یوں ادا کرتے ہو کہ اللہ کو جھٹلاتے ہو اور کہتے ہو کہ فلاں پخھتر (چاند کی منزل) اور فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے۔‘‘(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:3296) (2) واضح رہے کہ اس موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ملعون نے کہا تھا کہ شعریٰ ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسی وقت اس کی تردید کو مناسب خیال کیا۔ (فتح الباري:678/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رزق سے مراد شکر ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے صالح بن کیسان سے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا، ان سے زید بن خالد جہنی ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے حدیبیہ میں ہم کو صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو بارش ہو چکی تھی نماز کے بعد آپ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ لوگ بولے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پروردگار فرماتا ہے آج میرے دو طرح کے بندوں نے صبح کی۔ ایک مومن ہے ایک کافر۔ جس نے کہا اللہ کے فضل و رحم سے پانی پڑا وہ تو مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا منکر ہوا اور جس نے کہا فلاں تارے کے فلاں جگہ آنے سے پانی پڑا اس نے میرا کفر کیا، تاروں پر ایمان لایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Khalid Al-Juhani (RA): Allah's Apostle (ﷺ) led the Morning Prayer in Al-Hudaibiya and it had rained the previous night. When the Prophet (ﷺ) had finished the prayer he faced the people and said, "Do you know what your Lord has said?" They replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." (The Prophet (ﷺ) said), "Allah says, 'In this morning some of My worshipers remained as true believers and some became non-believers; he who said that it had rained with the blessing and mercy of Allah is the one who believes in Me and does not believe in star, but he who said it had rained because of such and such (star) is a disbeliever in Me and is a believer in star.' "