Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: As-Salat (the prayer) during a solar eclipse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1043.
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں سورج گرہن اس دن ہوا جس دن آپ کے لخت جگر ابراہیم ؑ کی وفات ہوئی تھی۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت ابراہیم ؑ کی وفات کے سبب سورج بے نور ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سورج اور چاند کسی کے مرنے اور پیدا ہونے سے گرہن زدہ نہیں ہوتے۔ جب تم گرہن دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے سورج گہن کے وقت نماز کی مشروعیت ثابت کرنے کے لیے ان احادیث کو بیان کیا ہے۔ امت کا اتفاق ہے کہ ایسے حالات میں نماز پڑھنی چاہیے، البتہ اس کی حقیقت و کیفیت کے متعلق اختلاف ہے۔ جمہور کے نزدیک نماز کسوف سنت مؤکدہ ہے، جبکہ محدث ابو عوانہ نے اسے واجب قرار دیا ہے اور اپنی صحیح میں بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: (بيان وجوب صلاة الكسوف)’’نماز کسوف کے وجوب کا بیان۔‘‘(مسند أبي عوانة:92/2) محدث العصر علامہ البانی ؒ نے بھی اس کے وجوب کو اختیار کیا ہے۔ (تمام المنة، ص:261) لیکن اس کے سنت مؤکدہ ہونے کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ (2) نماز کسوف کی کیفیت ادا میں بھی اختلاف ہے اور اس کی بنیاد روایات کا باہم متعارض ہونا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک رکعت میں ایک رکوع ہے، (المستدرك للحاکم:330/1) جبکہ کچھ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعات میں چھ رکوع کیے۔ (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2102 (904)) بعض روایات میں ایک رکعت میں چار رکوع کرنے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2112 (908)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت میں پانچ رکوع اور دو سجدے کیے، اسی طرح آپ نے دوسری رکعت میں کیا، گویا دو رکعت میں دس رکوع ہیں۔ (سنن أبي داود، صلاة الاستسقاء، حدیث:1182) لیکن رسول اللہ ﷺ نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف پڑھی ہے، کیونکہ آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم ؑ کی وفات ہوئی تھی، لہذا اس اختلاف کو تعددِ واقعات پر محمول کرنا صحیح نہیں۔ اکثر محدثین نے ان روایات میں سے صرف ان روایات کو ترجیح دی ہے جن میں ہر رکعت میں دو رکوع کرنے کا ذکر ہے، کیونکہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ان روایات کو بیان کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ حافظ ابن قیم ؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب "زاد المعاد" میں دلائل سے اسی موقف کو ثابت کیا ہے۔ (زادالمعاد، فصل في ھدیه صلی اللہ علیه وسلم في صلاة الکسوف) (3) یہ سورج اور چاند کرۂ ارض سے کئی گنا بڑے ہیں۔ انہیں گرہن زدہ کرنے سے مقصود غفلت شعار لوگوں کو قیامت کا منظر دکھا کر بیدار کرنا ہے، نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اظہار بھی ہے کہ مالک حقیقی اگر بے گناہ اور سراپا اطاعت مخلوق کو بے نور کر سکتا ہے تو خطاکار انسان کى گرفت بھی کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں اس وقت کرۂ ارض پر بسنے والے بہت سے لوگ کواکب و نجوم کی عبادت کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دو بڑے اور عظیم نورانی اجسام پر کسوف و خسوف طاری کرنے کا فیصلہ فرمایا تاکہ انہیں اپنی قدرت قاہرہ دکھا کر ان پر ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور بتایا جائے کہ ان دونوں اور ان سے بڑے اجرام فلکی کا مالک اللہ وحدہ لا شریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اور ان دونوں کا انتخاب اس لیے فرمایا کہ سورج کی گرمی سے انسانی ضروریات کی اشیاء تیار ہوتی ہیں اور چاند کی روشنی سے ان میں حسن اور خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1027
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1043
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1043
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1043
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں سورج گرہن اس دن ہوا جس دن آپ کے لخت جگر ابراہیم ؑ کی وفات ہوئی تھی۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت ابراہیم ؑ کی وفات کے سبب سورج بے نور ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سورج اور چاند کسی کے مرنے اور پیدا ہونے سے گرہن زدہ نہیں ہوتے۔ جب تم گرہن دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے سورج گہن کے وقت نماز کی مشروعیت ثابت کرنے کے لیے ان احادیث کو بیان کیا ہے۔ امت کا اتفاق ہے کہ ایسے حالات میں نماز پڑھنی چاہیے، البتہ اس کی حقیقت و کیفیت کے متعلق اختلاف ہے۔ جمہور کے نزدیک نماز کسوف سنت مؤکدہ ہے، جبکہ محدث ابو عوانہ نے اسے واجب قرار دیا ہے اور اپنی صحیح میں بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: (بيان وجوب صلاة الكسوف)’’نماز کسوف کے وجوب کا بیان۔‘‘(مسند أبي عوانة:92/2) محدث العصر علامہ البانی ؒ نے بھی اس کے وجوب کو اختیار کیا ہے۔ (تمام المنة، ص:261) لیکن اس کے سنت مؤکدہ ہونے کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ (2) نماز کسوف کی کیفیت ادا میں بھی اختلاف ہے اور اس کی بنیاد روایات کا باہم متعارض ہونا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک رکعت میں ایک رکوع ہے، (المستدرك للحاکم:330/1) جبکہ کچھ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعات میں چھ رکوع کیے۔ (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2102 (904)) بعض روایات میں ایک رکعت میں چار رکوع کرنے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2112 (908)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت میں پانچ رکوع اور دو سجدے کیے، اسی طرح آپ نے دوسری رکعت میں کیا، گویا دو رکعت میں دس رکوع ہیں۔ (سنن أبي داود، صلاة الاستسقاء، حدیث:1182) لیکن رسول اللہ ﷺ نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف پڑھی ہے، کیونکہ آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم ؑ کی وفات ہوئی تھی، لہذا اس اختلاف کو تعددِ واقعات پر محمول کرنا صحیح نہیں۔ اکثر محدثین نے ان روایات میں سے صرف ان روایات کو ترجیح دی ہے جن میں ہر رکعت میں دو رکوع کرنے کا ذکر ہے، کیونکہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ان روایات کو بیان کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ حافظ ابن قیم ؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب "زاد المعاد" میں دلائل سے اسی موقف کو ثابت کیا ہے۔ (زادالمعاد، فصل في ھدیه صلی اللہ علیه وسلم في صلاة الکسوف) (3) یہ سورج اور چاند کرۂ ارض سے کئی گنا بڑے ہیں۔ انہیں گرہن زدہ کرنے سے مقصود غفلت شعار لوگوں کو قیامت کا منظر دکھا کر بیدار کرنا ہے، نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اظہار بھی ہے کہ مالک حقیقی اگر بے گناہ اور سراپا اطاعت مخلوق کو بے نور کر سکتا ہے تو خطاکار انسان کى گرفت بھی کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں اس وقت کرۂ ارض پر بسنے والے بہت سے لوگ کواکب و نجوم کی عبادت کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دو بڑے اور عظیم نورانی اجسام پر کسوف و خسوف طاری کرنے کا فیصلہ فرمایا تاکہ انہیں اپنی قدرت قاہرہ دکھا کر ان پر ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور بتایا جائے کہ ان دونوں اور ان سے بڑے اجرام فلکی کا مالک اللہ وحدہ لا شریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اور ان دونوں کا انتخاب اس لیے فرمایا کہ سورج کی گرمی سے انسانی ضروریات کی اشیاء تیار ہوتی ہیں اور چاند کی روشنی سے ان میں حسن اور خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان ابو معاویہ نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، ان سے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن اس دن لگا جس دن (آپ ﷺ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم ؓ کا انتقال ہوا بعض لوگ کہنے لگے کہ گرہن حضرت ابراہیم ؓ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ گرہن کسی کی موت وحیات سے نہیں لگتا۔ البتہ تم جب اسے دیکھو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو۔
حدیث حاشیہ:
اتفاق سے جب حضرت ابراہیم آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے گزر گئے تو سورج گرہن لگا۔ بعض لوگوں نے سمجھا کہ ان کی موت سے یہ گرہن لگا ہے، آپ ﷺ نے اس اعتقاد کا رد فرمایا۔ جاہلیت کے لوگ ستاروں کی تاثیر زمین پر پڑنے کا اعتقاد رکھتے تھے ہماری شریعت نے اسے باطل قرار دیا۔حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ گرہن کی نماز کا وقت وہی ہے جب بھی گرہن لگے خواہ کسی وقت ہو، یہی مذہب راجح ہے۔ یہاں گرہن کو اللہ کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ مسند امام احمد اور نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں اتنا زیادہ منقول ہے کہ اللہ عزوجل جب کسی چیز پر تجلی کرتا ہے تو وہ عاجزی سے اطاعت کرتی ہے۔ تجلی کا اصل مفہوم ومطلوب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ یہ خیال کہ گرہن ہمیشہ چاند یا زمین کے حائل ہونے سے ہوتا ہے یہ علماء ہیئت کا خیال ہے اور یہ علم یقینی نہیں ہے۔ حکیم دیو جانس کلبی کا یہ حال تھا کہ جب اس کے سامنے کوئی علم ہیئت کا مسئلہ بیان کرتا تو وہ کہتا کہ کیا آپ آسمان سے اترے ہیں۔ بہر حال بقول حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم علماءہیئت جو کہتے ہیں کہ زمین یا چاند حائل ہوجانے سے گرہن ہوتا ہے، یہ حدیث کے خلاف نہیں ہے پھر بھی آیۃ من آیات اللہ کا اطلاق اس پر صحیح ہے۔ روایت میں جس واقعہ کاذکر ہے وہ 10ھ میں بماہ ربیع الاول یا ماہ رمضان میں ہوا تھا۔ واللہ أعلم بالصواب۔ صاحب تسہیل القاری لکھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا جیسے کفار کا اعتقاد تھا تو گرہن سورج اور چاند کا اپنے مقررہ وقت پر نہ ہوتا بلکہ جب دنیا میں کسی بڑے کی موت کا حادثہ پیش آتا یا کوئی بڑا آدمی پیدا ہوتا، گرہن لگا کرتا، حالانکہ اب کا ملین علم ہیئت نے سورج اور چاند کے گرہن کے اوقات ایسے دریافت کئے ہیں کہ ایک منٹ ان سے آگے پیچھے گرہن نہیں ہوتا اور سال بھر کی بیشتر جنتریوں میں لکھ دیتے ہیں کہ اس سال سورج گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت ہوگا اور چاند گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت میںاور یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ سورج یا چاند کی ٹکی گرہن سے کل چھپ جائے گی یا ان کا اتنا حصہ۔ اور یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ کس ملک میں کس قدر گرہن لگے گا۔ بہر حال یہ دونوں اللہ کی قدرت کی اہم نشانیاں ہیں اور قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا ہے:﴿وَمَانُرسِلُ بِالآیَاتِ اِلاَّ تَخوِیفًا﴾(بني إسرائیل:59) کہ ہم اپنی قدرت کی کتنی ہی نشانیاں لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں جو اہل ایمان ہیں وہ ان سے اللہ کے وجود برحق پر دلیل لے کر اپنا ایمان مضبوط کر تے ہیںاور جو الحادو دہریت کے شکار ہیں وہ ان کو مادی عینک سے دیکھ کر اپنے الحاد ودہریت میں ترقی کرتے ہیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ وفي کل شيئ له آية تدل علی أنه واحد یعنی کائنات کی ہر چیز میں اس امر کی نشانی موجود ہے کہ اللہ پاک اکیلا ہے علامہ شوکانی فرماتے ہیں کہ وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ إبْطَالُ مَا كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَعْتَقِدُونَهُ مِنْ تَأْثِيرِ الْكَوَاكِبِ. قَالَ الْخَطَّابِيِّ: كَانُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَعْتَقِدُونَ أَنَّ الْكُسُوفَ يُوجِبُ حُدُوثَ تَغَيُّرِ الْأَرْضِ مِنْ مَوْتٍ أَوْ ضَرَرٍ، فَأَعْلَمَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ اعْتِقَادٌ بَاطِلٌ، وَأَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ خَلْقَانِ مُسَخَّرَانِ لِلَّهِ تَعَالَى لَيْسَ لَهُمَا سُلْطَانٌ فِي غَيْرِهِمَا وَلَا قُدْرَةَ عَلَى الدَّفْعِ عَنْ أَنْفُسِهِمَا۔(نیل الأوطار)یعنی عہد جاہلیت والے ستاروں کی تاثیر کا جو اعتقاد رکھتے تھے اس حدیث میں اس کا ابطال ہے۔ خطابی نے کہا کہ جاہلیت کے لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ گرہن سے زمین پر موت یا اورکسی نقصان کا حادثہ ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے بتلایا کہ یہ اعتقاد باطل ہے اور سورج اور چاند اللہ پاک کی دو مخلوق جو اللہ پاک ہی کے تابع ہیں ان کو اپنے غیر میں کوئی اختیار نہیں اور نہ وہ اپنے ہی نفسوں سے کسی کو دفع کر سکتے ہیں۔ آج کل بھی عوام الناس جاہلیت جیسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں، اہل اسلام کو ایسے غلط خیال سے بالکل دو رہنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ ستاروں میں کوئی طاقت قدرت نہیں ہے۔ ہر قسم کی قدرت صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Mughira bin Shu'ba (RA): "The sun eclipsed in the life-time of Allah's Apostle (ﷺ) on the day when (his son) Ibrahim died. So the people said that the sun had eclipsed because of the death of Ibrahim. Allah's Apostle (ﷺ) said, "The sun and the moon do not eclipse because of the death or life (i.e. birth) of some-one. When you see the eclipse pray and invoke Allah."