Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: To give Sadaqa during the eclipse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1044.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور اس میں بہت طویل قیام کیا، پھر رکوع کیا تو وہ بھی بہت طویل کیا۔ رکوع کے بعد قیام کیا تو وہ بھی بہت طویل تھا لیکن پہلے قیام سے کچھ مختصر۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے قدرے کم تھا۔ پھر سجدہ بھی بہت طویل کیا۔ دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا جیسا کہ پہلی رکعت میں کیا تھا۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب صاف ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ’’بلاشبہ یہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے جینے سے گرہن زدہ نہیں ہوتے۔ جس وقت تم ایسا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو، اس کی کبریائی کا اعتراف کرو، نماز پڑھو اور صدقہ و خیرات کرو۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’اے امت محمد! اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے کہ اس کا غلام یا اس کی باندی بدکاری کرے، اے امت محمد! اللہ کی قسم! اگر تم اس بات کو جان لو جو میں جانتا ہوں تو تمہیں ہنسی بہت کم آئے اور رونا بہت زیادہ آئے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث کو حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرنے والے آپ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن ہیں۔ پھر عروہ سے بیان کرنے والے ان کے بیٹے حضرت ہشام اور امام زہری ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے ایسی باتیں بیان کی ہیں جو دوسرے بیان نہیں کرتے۔ حضرت ہشام کے علاوہ اور کوئی راوی سورج گرہن کے وقت صدقہ و خیرات کرنے کا ذکر نہیں کرتا، اس لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت ہشام پر صدقہ کرنے کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ صدقہ و خیرات نماز کسوف کے بعد ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے نماز کسوف کے عنوان کے بعد اس موقع پر صدقہ و خیرات کرنے کا عنوان قائم کیا ہے۔ (فتح الباري:683/2) اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں اس وقت دکھاتا ہے جب بندوں کی طرف سے محارم کی پردہ داری اور معاصی کا کھلے بندوں ارتکاب ہوتا ہے۔ بندوں کو ڈرانے اور گناہوں سے باز رکھنے کے لیے ایسی نشانیوں کا ظہور ہوتا ہے، لہٰذا ایسے اوقات میں اللہ کے حضور صدقہ و خیرات کرنا چاہیے تاکہ وہ ہمیں اس وقت اپنے انتقام کا نشانہ نہ بنائے اور ہمیں دیگر مصائب و آلام سے محفوظ رکھے۔ اس روایت میں جرم زنا کو بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ اس جرم کی خصوصیت ہے کہ نفس کا میلان جتنا زنا کی طرف ہوتا ہے اتنا دیگر معاصی کی طرف نہیں ہوتا۔ (2) اس حدیث میں غیرت کو اللہ کی صفت کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو برحق ہے۔ ہم اس کی کوئی تاویل نہیں کرتے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو ان کے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں بشرطیکہ وہ صفات قرآن و حدیث سے ثابت ہوں۔ ان کی تاویل کرنا متکلمین کا طریقہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غیرت، غصے کے وقت جوش کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس قسم کے تغیرات سے پاک ہے۔ ہمارے نزدیک اللہ کی صفات افعال میں تغیر آ سکتا ہے، مثلاً: گناہ کرنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے تو انابت اور توبہ سے خوش ہوتا ہے، اس بنا پر ہم صفات باری تعالیٰ میں کوئی تاویل یا تحریف نہیں کرتے بلکہ انہیں جوں کا توں اللہ کے لیے ثابت کرتے ہیں۔ (3) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کسوف کو رسول اللہ ﷺ نے تمام نمازوں سے زیادہ طویل پڑھایا ہے اور سورج کے صاف ہونے تک اسے جاری رکھا ہے۔ صحابۂ کرام نے طویل قیام، بہت لمبے رکوع اور سجود کی کیفیت کو اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ قوی اور صحیح مذکورہ روایت ہے جس میں ہر ایک رکعت کے اندر دو دو رکوع اور دو دو سجدے ہیں۔ اگرچہ بعض روایات میں تین تین، بعض میں چار چار اور بعض میں پانچ پانچ رکوع ہر رکعت میں وارد ہیں مگر مذکورہ روایت پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے۔ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ نے بھی اسے ترجیح دی ہے۔ امام بخاری ؒ کا بھی یہی رجحان ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1028
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1044
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1044
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1044
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور اس میں بہت طویل قیام کیا، پھر رکوع کیا تو وہ بھی بہت طویل کیا۔ رکوع کے بعد قیام کیا تو وہ بھی بہت طویل تھا لیکن پہلے قیام سے کچھ مختصر۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے قدرے کم تھا۔ پھر سجدہ بھی بہت طویل کیا۔ دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا جیسا کہ پہلی رکعت میں کیا تھا۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب صاف ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ’’بلاشبہ یہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے جینے سے گرہن زدہ نہیں ہوتے۔ جس وقت تم ایسا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو، اس کی کبریائی کا اعتراف کرو، نماز پڑھو اور صدقہ و خیرات کرو۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’اے امت محمد! اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے کہ اس کا غلام یا اس کی باندی بدکاری کرے، اے امت محمد! اللہ کی قسم! اگر تم اس بات کو جان لو جو میں جانتا ہوں تو تمہیں ہنسی بہت کم آئے اور رونا بہت زیادہ آئے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کو حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرنے والے آپ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن ہیں۔ پھر عروہ سے بیان کرنے والے ان کے بیٹے حضرت ہشام اور امام زہری ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے ایسی باتیں بیان کی ہیں جو دوسرے بیان نہیں کرتے۔ حضرت ہشام کے علاوہ اور کوئی راوی سورج گرہن کے وقت صدقہ و خیرات کرنے کا ذکر نہیں کرتا، اس لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت ہشام پر صدقہ کرنے کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ صدقہ و خیرات نماز کسوف کے بعد ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے نماز کسوف کے عنوان کے بعد اس موقع پر صدقہ و خیرات کرنے کا عنوان قائم کیا ہے۔ (فتح الباري:683/2) اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں اس وقت دکھاتا ہے جب بندوں کی طرف سے محارم کی پردہ داری اور معاصی کا کھلے بندوں ارتکاب ہوتا ہے۔ بندوں کو ڈرانے اور گناہوں سے باز رکھنے کے لیے ایسی نشانیوں کا ظہور ہوتا ہے، لہٰذا ایسے اوقات میں اللہ کے حضور صدقہ و خیرات کرنا چاہیے تاکہ وہ ہمیں اس وقت اپنے انتقام کا نشانہ نہ بنائے اور ہمیں دیگر مصائب و آلام سے محفوظ رکھے۔ اس روایت میں جرم زنا کو بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ اس جرم کی خصوصیت ہے کہ نفس کا میلان جتنا زنا کی طرف ہوتا ہے اتنا دیگر معاصی کی طرف نہیں ہوتا۔ (2) اس حدیث میں غیرت کو اللہ کی صفت کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو برحق ہے۔ ہم اس کی کوئی تاویل نہیں کرتے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو ان کے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں بشرطیکہ وہ صفات قرآن و حدیث سے ثابت ہوں۔ ان کی تاویل کرنا متکلمین کا طریقہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غیرت، غصے کے وقت جوش کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس قسم کے تغیرات سے پاک ہے۔ ہمارے نزدیک اللہ کی صفات افعال میں تغیر آ سکتا ہے، مثلاً: گناہ کرنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے تو انابت اور توبہ سے خوش ہوتا ہے، اس بنا پر ہم صفات باری تعالیٰ میں کوئی تاویل یا تحریف نہیں کرتے بلکہ انہیں جوں کا توں اللہ کے لیے ثابت کرتے ہیں۔ (3) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کسوف کو رسول اللہ ﷺ نے تمام نمازوں سے زیادہ طویل پڑھایا ہے اور سورج کے صاف ہونے تک اسے جاری رکھا ہے۔ صحابۂ کرام نے طویل قیام، بہت لمبے رکوع اور سجود کی کیفیت کو اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ قوی اور صحیح مذکورہ روایت ہے جس میں ہر ایک رکعت کے اندر دو دو رکوع اور دو دو سجدے ہیں۔ اگرچہ بعض روایات میں تین تین، بعض میں چار چار اور بعض میں پانچ پانچ رکوع ہر رکعت میں وارد ہیں مگر مذکورہ روایت پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے۔ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ نے بھی اسے ترجیح دی ہے۔ امام بخاری ؒ کا بھی یہی رجحان ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیا ن کیا، ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر ؓ نے بیان کیا، ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓا نے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پہلے آپ کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک کھڑے رہے، قیام کے بعد رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے۔ پھر رکوع سے اٹھنے کے بعد دیر تک دوبارہ کھڑے رہے لیکن آپ کے پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر، پھر سجدہ میں گئے اور دیر تک سجدہ کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا، جب آپ فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکاتھا۔ اس کے بعدآپ نے خطبہ دیا اللہ تعالی کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ پھر آپ نے فرمایا: اے محمد کی امت کے لوگو! دیکھو اس بات پر اللہ تعالی سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے، اے امت محمد ﷺ! واللہ جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوجائے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
حدیث حاشیہ:
یعنی ہر رکعت میں دو دو رکوع کئے اور دو دو قیام اگر چہ بعض روایتوں میں تین تین رکوع اور بعض میں چار چار اور بعض میں پانچ پانچ ہر رکعت میں وارد ہوئے ہیں۔ مگر دو دو رکوع کی روایتیں صحت میں بڑھ کر ہیں اور اہلحدیث اور شافعی کا اس پر عمل ہے اور حنفیہ کے نزدیک ہر رکعت میں ایک ہی رکوع کرے۔ امام ابن قیم ؒ نے کہا ایک رکوع کی روایتیں صحت میں دو دو رکوع کی روایتوں کے برابر نہیں ہیں اب جن روایتوں میں دو رکوع سے زیادہ منقول ہیں تو وہ راویوں کی غلطی ہے یا کسوف کا واقعہ کئی بار ہوا ہو گا۔ بعضے علماء نے یہی اختیار کیا ہے کہ جن جن طرحوں سے کسوف کی نماز منقول ہے ان سب طرحوں سے پڑھنا درست ہے۔ قسطلانی ؒ نے پچھلے متکلمین کی طرح غیرت کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ غیرت غصے کے جوش کو کہتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے تغیرات سے پاک ہے۔ اہلحدیث کا یہ طریق نہیں، اہل حدیث اللہ تعالی کی ان سب صفات کو جو قرآن وحدیث میں وارد ہیں اپنے ظاہری معنی پر محمول رکھتے ہیں اور ان میں تاویل اور تحریف نہیں کرتے جب غضب اللہ تعالی صفات کی میں سے ہے تو غیرت بھی اس کی صفات میں سے ہوگی غضب زائد اور کم ہو سکتا ہے اور تغیر اللہ کی ذات اور صفات حقیقیہ میں نہیں ہوتا لیکن صفات افعال میں تو تغیر ضرور ہے، مثلاً گناہ کرنے سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے پھر توبہ کرنے سے راضی ہو جاتا ہے اللہ تعالی کلا م کرتا اور کبھی کلام نہیں کرتا کبھی اترتا ہے کبھی چڑھتا ہے غرض صفات افعالیہ کا حدوث اور تغیر اہلحدیث کے نزدیک جائز ہے۔ (مولانا وحید الزماں مرحوم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ‘ Aisha (RA): In the life-time of Allah's Apostle (ﷺ) the sun eclipsed, so he led the people in prayer, and stood up and performed a long Qiyam, then bowed for a long while. He stood up again and performed a long Qiyam but this time the period of standing was shorter than the first. He bowed again for a long time but shorter than the first one, and then he prostrated and prolonged the prostration. He did the same in the second Raka as he did in the first and then finished the prayer; by then the sun (eclipse) had cleared. He delivered the Khutba (sermon) and after praising and glorifying Allah he said, "The sun and the moon are two signs against the signs of Allah; they do not eclipse on the death or life of anyone. So when you see the eclipse remember Allah and says Takbir, pray and give Sadaqa." The Prophet (ﷺ) then said, "O followers of Muhammad (ﷺ) ! By Allah! There is none who has more ghaira (self-respect) than Allah as He has forbidden that His slaves, male or female commit adultery (illegal sexual intercourse). O followers of Muhammad (ﷺ) ! By Allah! If you knew that which I know you would laugh little and weep much.