Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: A Khutba (delivered) by the Imam on the eclipse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عائشہ ؓاور اسماء ؓ نے روایت کیا کہ نبیﷺ نے سورج گرہن میں خطبہ دیا۔
1046.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں سورج بے نور ہوا تو آپ مسجد میں تشریف لائے، لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں بنا لیں۔ آپ نے تکبیر تحریمہ کہی، پھر لمبی قراءت فرمائی۔ اس کے بعداللہ أکبر کہہ کر ایک طویل رکوع کیا۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو کھڑے رہے اور سجدہ نہ کیا بلکہ طویل قراءت کی جو پہلی قراءت سے قدرے کم تھی۔ پھر اللہ أکبر کہہ کر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے قدرے کم تھا۔ اس کے بعد آپ نے سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد کہا اور سجدے میں چلے گئے۔ پھر دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا۔ اس طرح آپ نے چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ نماز مکمل کی۔ نماز ختم ہونے سے پہلے پہلے سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد و ثنا بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا: ’’یہ دونوں (سورج اور چاند) اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ جب تم انہیں بایں حالت دیکھو تو اللہ سے التجا کرتے ہوئے نماز کی طرف آ جاؤ۔‘‘ کثیر بن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بھی سورج گرہن کے متعلق اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح حضرت عروہ بن زبیر ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے بیان کی تھی۔ میں نے حضرت عروہ سے کہا: جس دن مدینہ طیبہ میں سورج کو گرہن لگا تھا تو آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے نماز کسوف میں نماز فجر کی طرح دو سے زیادہ رکوع نہیں کیے تھے۔ انہوں نے جواب دیا: ہاں، لیکن انہوں نے سنت کے خلاف کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1030
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1046
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1046
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1046
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
تمہید باب
حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنھن سے مروی دونوں احادیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے، چنانچہ حدیث: 1044 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حدیث: 1058 حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔
اور عائشہ ؓاور اسماء ؓ نے روایت کیا کہ نبیﷺ نے سورج گرہن میں خطبہ دیا۔
حدیث ترجمہ:
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں سورج بے نور ہوا تو آپ مسجد میں تشریف لائے، لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں بنا لیں۔ آپ نے تکبیر تحریمہ کہی، پھر لمبی قراءت فرمائی۔ اس کے بعداللہ أکبر کہہ کر ایک طویل رکوع کیا۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو کھڑے رہے اور سجدہ نہ کیا بلکہ طویل قراءت کی جو پہلی قراءت سے قدرے کم تھی۔ پھر اللہ أکبر کہہ کر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے قدرے کم تھا۔ اس کے بعد آپ نے سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد کہا اور سجدے میں چلے گئے۔ پھر دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا۔ اس طرح آپ نے چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ نماز مکمل کی۔ نماز ختم ہونے سے پہلے پہلے سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد و ثنا بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا: ’’یہ دونوں (سورج اور چاند) اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ جب تم انہیں بایں حالت دیکھو تو اللہ سے التجا کرتے ہوئے نماز کی طرف آ جاؤ۔‘‘ کثیر بن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بھی سورج گرہن کے متعلق اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح حضرت عروہ بن زبیر ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے بیان کی تھی۔ میں نے حضرت عروہ سے کہا: جس دن مدینہ طیبہ میں سورج کو گرہن لگا تھا تو آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے نماز کسوف میں نماز فجر کی طرح دو سے زیادہ رکوع نہیں کیے تھے۔ انہوں نے جواب دیا: ہاں، لیکن انہوں نے سنت کے خلاف کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہ اور حضرت اسماء ؓ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (سورج گہن کے وقت) خطبہ ارشاد فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے ( دوسری سند ) اور مجھ سے احمد بن صالح نے بیان کیا کہ ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عروہ نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں سورج گرہن لگا، اسی وقت آپ ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ لوگوں نے حضور اکرم ﷺ کے پیچھے صف باندھی آپ نے تکبیر کہی اور بہت دیر قرآن مجید پڑھتے رہے پھر تکبیر کہی اور بہت لمبا رکوع کیا پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر کھڑے ہوگئے اور سجدہ نہیں کیا (رکوع سے اٹھنے کے بعد) پھر بہت دیر تک قرآن مجید پڑھتے رہے۔ لیکن پہلی قرات سے کم، پھر تکبیر کے ساتھ رکوع میں چلے گئے اور دیر تک رکوع میں رہے، یہ رکوع بھی پہلے رکوع سے کم تھا۔ اب سمع اللہ لمن حمدہ اور ر بنا ولك الحمد کہا پھر سجدہ میں گئے۔ آپ نے دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا (ان دونوں رکعتوں میں) پورے چار رکوع اور چار سجدے کئے۔ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی سورج صاف ہو چکا تھا۔ نماز کے بعد آپ نے کھڑے ہوکر خطبہ فرمایا اور پہلے اللہ تعالی کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی پھر فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی دو نشانیاں ہیں ان میں گرہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا لیکن جب تم گرہن دیکھا کرو تو فوراً نماز کی طرف لپکو۔ زہری نے کہا کہ کثیر بن عباس اپنے بھائی عبد اللہ بن عباس سے روایت کر تے تھے وہ سورج گرہن کا قصہ اس طرح بیان کرتے تھے جیسے عروہ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے نقل کیا۔ زہری نے کہا میں نے عروہ سے کہا تمہارے بھائی عبداللہ بن زبیر نے جس دن مدینہ میں سورج گرہن ہوا صبح کی نماز کی طرح دو رکعت پڑھی اور کچھ زیادہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا ہاں مگر وہ سنت کے طریق سے چوک گئے۔