Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: Should one say: The sun Kasafat or Khasafat?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ القیامہ میں) فرمایا: «وخسف القمر» ۔
1047.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا: جس دن سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ أکبر کہا اور لمبی قراءت فرمائی، پھر طویل رکوع کیا، اس کے بعد اپنا سر مبارک اٹھایا اور سمع الله لمن حمده کہا اور ایسے کھڑے ہو گئے جیسے (رکوع سے) پہلے کھڑے تھے، پھر لمبی قراءت فرمائی جو پہلی قراءت سے کم تھی۔ پھر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے قدرے کم تھا، اس کے بعد آپ نے لمبا سجدہ کیا، پھر آپ نے دوسری رکعت کو بھی اسی طرح ادا کیا، اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ نے خطبہ دیا اور شمس و قمر کے گرہن کے متعلق فرمایا: ’’یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو کسی کی موت و حیات کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے۔ تم جب انہیں اس حالت میں دیکھو تو خوف زدہ ہو کر نماز کی طرف توجہ کرو۔‘‘
تشریح:
امام بخاری ؒ کے نزدیک لفظ کسوف اور خسوف کا اطلاق سورج اور چاند دونوں کے لیے جائز ہے۔ اس روایت کے آغاز میں لفظ خسوف اگرچہ سورج کے لیے استعمال ہوا ہے، تاہم دیگر روایات میں سورج کے لیے لفظ کسوف استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح راوی نے روایت کے آخر میں دونوں کے لیے لفظ کسوف استعمال کیا ہے پھر لا يخسفان سے دونوں پر لفظ خسوف استعمال کیا، اس کا واضح مطلب ہے کہ دونوں الفاظ دونوں کے لیے جائز ہیں، اگرچہ عام طور پر سورج کے لیے کسوف اور چاند کے لیے خسوف بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ آیت کریمہ میں چاند کے لیے خسوف اور روایات میں سورج کے لیے خسوف استعمال ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1031
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1047
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1047
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1047
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
تمہید باب
حضرت عروہ کہتے ہیں کہ سورج گہن کے لیے لفظ کسوف کے بجائے خسوف استعمال کرو۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کیونکہ متعدد احادیث میں سورج کے لیے لفظ کسوف استعمال ہوا ہے۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے آیت کریمہ کا حوالہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج گہن کے لیے لفظ کسوف ہے، لہذا سورج کے لیے اس لفظ کے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں۔ اگرچہ فقہاء لفظ کسوف سورج کے لیے اور لفظ خسوف چاند کے لیے استعمال کرتے ہیں، تاہم یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہو جاتے ہیں۔ لغوی اعتبار سے کسوف کے معنی ہیں: روشنی کم ہوتے ہوتے تاریکی چھا جانا اور خسوف کے معنی روشنی کا کم ہونا ہیں۔ (فتح الباری:2/690)
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ القیامہ میں) فرمایا: «وخسف القمر» ۔
حدیث ترجمہ:
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا: جس دن سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ أکبر کہا اور لمبی قراءت فرمائی، پھر طویل رکوع کیا، اس کے بعد اپنا سر مبارک اٹھایا اور سمع الله لمن حمده کہا اور ایسے کھڑے ہو گئے جیسے (رکوع سے) پہلے کھڑے تھے، پھر لمبی قراءت فرمائی جو پہلی قراءت سے کم تھی۔ پھر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے قدرے کم تھا، اس کے بعد آپ نے لمبا سجدہ کیا، پھر آپ نے دوسری رکعت کو بھی اسی طرح ادا کیا، اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ نے خطبہ دیا اور شمس و قمر کے گرہن کے متعلق فرمایا: ’’یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو کسی کی موت و حیات کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے۔ تم جب انہیں اس حالت میں دیکھو تو خوف زدہ ہو کر نماز کی طرف توجہ کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے نزدیک لفظ کسوف اور خسوف کا اطلاق سورج اور چاند دونوں کے لیے جائز ہے۔ اس روایت کے آغاز میں لفظ خسوف اگرچہ سورج کے لیے استعمال ہوا ہے، تاہم دیگر روایات میں سورج کے لیے لفظ کسوف استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح راوی نے روایت کے آخر میں دونوں کے لیے لفظ کسوف استعمال کیا ہے پھر لا يخسفان سے دونوں پر لفظ خسوف استعمال کیا، اس کا واضح مطلب ہے کہ دونوں الفاظ دونوں کے لیے جائز ہیں، اگرچہ عام طور پر سورج کے لیے کسوف اور چاند کے لیے خسوف بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ آیت کریمہ میں چاند کے لیے خسوف اور روایات میں سورج کے لیے خسوف استعمال ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وَخَسَفَ الْقَمَرُ ﴿٨﴾) "جب چاند کو گہن لگ جائے گا۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے خبر دی کہ جس دن سورج میں خسوف (گرہن) لگا تو نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھائی۔ آپ کھڑے ہوئے تکبیر کہی پھر دیر تک قرآن مجید پڑھتے رہے۔ لیکن اس کے بعد ایک طویل رکوع کیا۔ رکوع سے سراٹھایا تو کہا سمع اللہ لمن حمدہ پھر آپ پہلے ہی کی طرح کھڑے ہوگئے اور دیر تک قرآن مجید پڑھتے رہے لیکن اس مرتبہ کی قرات پہلے سے کچھ کم تھی۔ پھر آپ سجدہ میں گئے اور بہت دیر تک سجدہ میں رہے پھر دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو سورج صاف ہو چکا تھا۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ سورج اور چاند کا ’’کسوف‘‘ (گرہن) اللہ تعالی کی ایک نشانی ہے اور ان میں ’’خسوف‘‘(گرہ) کسی کی موت و زندگی پر نہیں لگتا۔ لیکن جب تم سے دیکھو تو فوراً نماز کے لیے لپکو۔
حدیث حاشیہ:
ہر دو کے گرہن پر آپ ﷺ نے کسوف اور خسوف ہر دو لفظ استعمال فرمائے۔ پس باب کا مطلب ثابت ہوا
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): (The wife of the Prophet) On the day when the sun Khasafat (eclipsed) Allah's Apostle (ﷺ) prayed; he stood up and said Takbir and recited a prolonged recitation, then he performed a prolonged bowing, then he raised his head and said, "Sami'a-l-lahu Lyman Hamidah," and then remained standing and recited a prolonged recitation which was shorter than the first. Then he performed a prolonged bowing which was shorter than the first. Then he prostrated and prolonged the prostration and he did the same in the second Raka as in the first and then finished the prayer with Taslim. By that time the sun (eclipse) had cleared He addressed the people and said, "The sun and the moon are two of the signs of Allah; they do not eclipse (Yakhsifan) because of the death or the life (i.e. birth) of someone. So when you see them make haste for the prayer."