Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: "Allah frightens His slaves with Kusuf (eclipse))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ ابوموسیٰ اشعری ؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کیا ہے۔
1048.
حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سورج اور چاند اللہ کی آیات میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کی موت کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ ) کہتے ہیں: عبدالوارث، شعبہ، خالد بن عبداللہ اور حماد بن سلمہ نے یونس سے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے ’’ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘ اشعث نے حسن سے مذکورہ الفاظ بیان نہ کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔ موسیٰ نے مبارک کے واسطے سے مذکورہ الفاظ بیان کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔ وہ (مبارک) حسن بصری سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا: مجھے ابوبکرہ نے نبی ﷺ سے بیان کیا: آپ نے فرمایا: ’’ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کی اہمیت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ شمس و قمر کو بے نور کر کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے حضور توبہ و استغفار کا نذرانہ پیش کریں، اسے کھیل اور تماشا تصور نہ کریں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ﴿٥٩﴾)(بني إسرائیل58:17)’’ہم تو اپنی نشانیاں اس لیے بھیجتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے بندوں کو ڈرایا جائے۔‘‘ لہذا بندوں کو چاہیے کہ ایسے حالات میں نماز کا اہتمام کریں، صدقہ و خیرات کریں اور اللہ کے حضور ڈرتے ہوئے توبہ و استغفار کریں۔ (2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں کچھ متابعات ذکر فرمائی ہیں کہ یونس سے ان کے کچھ شاگردوں نے حدیث کے آخری الفاظ بیان نہیں کیے۔ ان میں ایک عبدالوارث ہیں۔ ان کی روایت کو امام بخاری نے خود (نمبر: 1063 کے تحت) بیان کیا ہے۔ اسی طرح کسوف القمر کے باب میں (نمبر: 1062 کے تحت) شعبہ کی روایت کو ذکر کیا ہے جس میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ اور خالد بن عبداللہ کی روایت (نمبر: 1040 کے تحت) پہلے گزر چکی ہے۔ حماد بن سلمہ کی روایت کو امام طبرانی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:692/2) اسی طرح اشعث بن عبدالملک نے حسن بصری سے اس روایت کو نقل کیا ہے، اس میں بھی حدیث کے آخری الفاظ نہیں ہیں۔ اس روایت کو امام نسائی اور ابن حبان نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (سنن النسائي، الکسوف، حدیث:1493) (3) موجودہ سائنس نے اس حد تک ترقی کر لی ہے کہ اس کے ذریعے سے چاند اور سورج کے گرہن کی قبل از وقت پیش گوئی کر دی جاتی ہے کہ فلاں ملک میں فلاں وقت سورج یا چاند گرہن ہو گا اور یہ گرہن کلی یا جزوی ہو گا اور اتنا عرصہ قائم رہے گا۔ تجربہ کے اعتبار سے وہ پیش گوئی بالکل صحیح ہوتی ہے، اس میں سرمو فرق نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود حدیث کے مطلب میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا مظاہرہ کرتا ہے کہ سورج اور چاند جیسے بڑے بڑے اجرام کو دم بھر میں تاریک کر دیتا ہے، لہذا اس کی عظمت و کبریائی کا اعتراف اور اس کی طاقت و ہیبت سے بندوں کو ہمہ وقت ڈرنا چاہیے۔ (فتح الباري:693/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1032
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1048
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1048
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1048
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
تمہید باب
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الکسوف،حدیث:1059)
حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سورج اور چاند اللہ کی آیات میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کی موت کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ ) کہتے ہیں: عبدالوارث، شعبہ، خالد بن عبداللہ اور حماد بن سلمہ نے یونس سے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے ’’ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘ اشعث نے حسن سے مذکورہ الفاظ بیان نہ کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔ موسیٰ نے مبارک کے واسطے سے مذکورہ الفاظ بیان کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔ وہ (مبارک) حسن بصری سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا: مجھے ابوبکرہ نے نبی ﷺ سے بیان کیا: آپ نے فرمایا: ’’ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کی اہمیت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ شمس و قمر کو بے نور کر کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے حضور توبہ و استغفار کا نذرانہ پیش کریں، اسے کھیل اور تماشا تصور نہ کریں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ﴿٥٩﴾)(بني إسرائیل58:17)’’ہم تو اپنی نشانیاں اس لیے بھیجتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے بندوں کو ڈرایا جائے۔‘‘ لہذا بندوں کو چاہیے کہ ایسے حالات میں نماز کا اہتمام کریں، صدقہ و خیرات کریں اور اللہ کے حضور ڈرتے ہوئے توبہ و استغفار کریں۔ (2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں کچھ متابعات ذکر فرمائی ہیں کہ یونس سے ان کے کچھ شاگردوں نے حدیث کے آخری الفاظ بیان نہیں کیے۔ ان میں ایک عبدالوارث ہیں۔ ان کی روایت کو امام بخاری نے خود (نمبر: 1063 کے تحت) بیان کیا ہے۔ اسی طرح کسوف القمر کے باب میں (نمبر: 1062 کے تحت) شعبہ کی روایت کو ذکر کیا ہے جس میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ اور خالد بن عبداللہ کی روایت (نمبر: 1040 کے تحت) پہلے گزر چکی ہے۔ حماد بن سلمہ کی روایت کو امام طبرانی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:692/2) اسی طرح اشعث بن عبدالملک نے حسن بصری سے اس روایت کو نقل کیا ہے، اس میں بھی حدیث کے آخری الفاظ نہیں ہیں۔ اس روایت کو امام نسائی اور ابن حبان نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (سنن النسائي، الکسوف، حدیث:1493) (3) موجودہ سائنس نے اس حد تک ترقی کر لی ہے کہ اس کے ذریعے سے چاند اور سورج کے گرہن کی قبل از وقت پیش گوئی کر دی جاتی ہے کہ فلاں ملک میں فلاں وقت سورج یا چاند گرہن ہو گا اور یہ گرہن کلی یا جزوی ہو گا اور اتنا عرصہ قائم رہے گا۔ تجربہ کے اعتبار سے وہ پیش گوئی بالکل صحیح ہوتی ہے، اس میں سرمو فرق نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود حدیث کے مطلب میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا مظاہرہ کرتا ہے کہ سورج اور چاند جیسے بڑے بڑے اجرام کو دم بھر میں تاریک کر دیتا ہے، لہذا اس کی عظمت و کبریائی کا اعتراف اور اس کی طاقت و ہیبت سے بندوں کو ہمہ وقت ڈرنا چاہیے۔ (فتح الباري:693/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے نبی ﷺسے اسی طرح روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یونس بن عبید نے، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے ابوبکرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سورج اور چاند دونوں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالی اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ عبد الوارث، شعبہ، خالد بن عبداللہ اور حماد بن سلمہ ان سب حافظوں نے یونس سے یہ جملہ کہ ’’اللہ تعالی ان کو گرہن کر کے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘ بیان نہیں کیا اور یونس کے ساتھ اس حدیث کو موسیٰ نے مبارک بن فضالہ سے، انہوں نے امام حسن بصری سے روایت کیا۔ اس میں یوں ہے کہ ابوبکرہ نے آنحضرت ﷺ سے سن کر مجھ کو خبر دی کہ اللہ تعالی ان کو گرہن کر کے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور یونس کے ساتھ اس حدیث کو اشعث بن عبد اللہ نے بھی امام حسن بصری سے روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
تشریح : اس کو خود امام بخاری ؒ نے آگے چل کر وصل کیا گو کسوف یا خسوف زمین یا چاند کے حائل ہونے سے ہو جس میں اب کچھ شک نہیں رہا۔ یہاں تک کہ منجمین اور اہل ہیئت خسوف اور کسوف کا ٹھیک وقت اور یہ کہ وہ کس ملک میں کتنا ہوگا پہلے ہی بتا دیتے ہیں اور تجربہ سے وہ بالکل ٹھیک نکلتا ہے، اس میں سرموفرق نہیں ہوتا مگر اس سے حدیث کے مطلب میں کوئی خلل نہیں آیا کیونکہ خدا وند کریم اپنی قدرت اور طاقت دکھلاتا ہے کہ چاند اور سورج کیسے بڑے اور روشن اجرام کو وہ دم بھر میں تاریک کر دیتا ہے۔ اس کی عظمت اورطاقت اور ہیئت سے بندوں کو ہر دم تھرانا چاہیے اور جس نے چاند اور سورج گرہن کے عادی اور حسابی ہونے کا انکار کیا ہے، وہ عقلاءکے نزدیک ہنسی کے قابل ہے۔ (مولانا وحید الزماں مرحوم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said: "The sun and the moon are two signs amongst the signs of Allah and they do not eclipse because of the death of someone but Allah frightens His devotees with them."