باب:اس بارے میں کہ جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص علم پہنچائیں ‘
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: It is incumbent on those who are present [in a religious meeting (or conference)] to convey the knowledge to those who are absent)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جناب حضرت رسول اللہ ﷺسے نقل کیا ہے۔ اور ( بخاری کتاب الحج میں یہ تعلیق باسناد موجود ہے
105.
حضرت ابو بکرہ ؓ نے نبی ﷺ کا ذکر کیا کہ آپ نے فرمایا: ’’بلاشبہ تمہاری جانیں، تمہارے اموال، محمد بن سیرین کہتے ہیں: آپ نے یہ بھی فرمایا: تمہاری عزتیں، تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں ہے۔ خبردار! حاضر، غائب تک یہ بات پہنچا دے۔‘‘ محمد بن سیرین فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا، ایسا ہی ہوا۔’’ آگاہ رہو! جواب دو، کیا میں نے فریضہ تبلیغ ادا کر دیا؟‘‘ آپ نے ایسا دو بار فرمایا۔
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطاب حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا ۔ اس کی تفصیل گزر چکی ہے بقیہ مباحث پر تفصیلی گفتگو کتاب الحج میں آئے گی۔ محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ آپ کا ارشاد صحیح ثابت ہوا۔ حاضر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو غائبین تک پہنچانے میں پوری پوری کوشش کی اور اپنی تمام تر توانائیوں کو صرف کیا، پھر غائب محدثین و مجتہدین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات سے بے شمار مسائل کا استنباط کیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
107
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
105
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
105
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
105
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
پہلے باب میں اپنے آپ کو سمجھانے کے لیے مراجعت کا ذکر تھا، اب دوسروں کو سمجھانے کے لیے مراجعت کا بیان ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے کہ دعوت و تبلیغ علماء کی ذمے داری ہے۔ اس کے لیے علوم وفنون کی تکمیل ضروری نہیں۔جس قدر دینی معلومات حاصل ہوں انھیں آگے پہنچا دیا ائے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ معلق روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آگے موصولاً بھی بیان کیا ہے۔( صحیح البخاری،الحج ،حدیث 1739۔)
یہ قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جناب حضرت رسول اللہ ﷺسے نقل کیا ہے۔ اور ( بخاری کتاب الحج میں یہ تعلیق باسناد موجود ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو بکرہ ؓ نے نبی ﷺ کا ذکر کیا کہ آپ نے فرمایا: ’’بلاشبہ تمہاری جانیں، تمہارے اموال، محمد بن سیرین کہتے ہیں: آپ نے یہ بھی فرمایا: تمہاری عزتیں، تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں ہے۔ خبردار! حاضر، غائب تک یہ بات پہنچا دے۔‘‘ محمد بن سیرین فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا، ایسا ہی ہوا۔’’ آگاہ رہو! جواب دو، کیا میں نے فریضہ تبلیغ ادا کر دیا؟‘‘ آپ نے ایسا دو بار فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطاب حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا ۔ اس کی تفصیل گزر چکی ہے بقیہ مباحث پر تفصیلی گفتگو کتاب الحج میں آئے گی۔ محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ آپ کا ارشاد صحیح ثابت ہوا۔ حاضر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو غائبین تک پہنچانے میں پوری پوری کوشش کی اور اپنی تمام تر توانائیوں کو صرف کیا، پھر غائب محدثین و مجتہدین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات سے بے شمار مسائل کا استنباط کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے حماد نے ایوب کے واسطے سے نقل کیا، وہ محمد سے اور وہ ابن ابی بکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ابوبکرہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا کہ آپ ﷺ نے (یوں) فرمایا، تمہارے خون اور تمہارے مال، محمد کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ ﷺ نے أعراضکم کا لفظ بھی فرمایا۔ (یعنی) اور تمہاری آبروئیں تم پر حرام ہیں۔ جس طرح تمہارے آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں۔ سن لو! یہ خبر حاضر غائب کو پہنچا دے۔ اور محمد (راوی حدیث) کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا۔ (پھر) دوبارہ فرمایا کہ کیا میں نے (اللہ کا یہ حکم) تمہیں نہیں پہنچا دیا۔
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ کہ میں اس حدیث نبوی کی تعمیل کرچکا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں یہ فرمایا تھا، دوسری حدیث میں تفصیل سے اس کا ذکر آیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA): The Prophet (ﷺ) said. No doubt your blood, property, the sub-narrator Muhammad thought that Abu Bakra (RA) had also mentioned and your honor (chastity), are sacred to one another as is the sanctity of this day of yours in this month of yours. It is incumbent on those who are present to inform those who are absent." (Muhammad the Subnarrator used to say, "Allah's Apostle (ﷺ) told the truth.") The Prophet (ﷺ) repeated twice: "No doubt! Haven't I conveyed Allah's message to you.