Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: The solar eclipse does not occur because of someone's death or life)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو ابوبکرہ، مغیرہ، ابوموسیٰ اشعری، ابن عباس اور ابن عمر ؓ نے روایت کیا ہے۔
1058.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے، چنانچہ آپ نے قیام میں طویل قراءت کی، پھر لمبا رکوع فرمایا۔ اس کے بعد جب اپنا سر اٹھایا تو قیام میں پھر لمبی قراءت کی جو پہلی قراءت سے قدرے کم تھی۔ اس کے بعد آپ نے رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ مختصر تھا، پھر اپنا سر مبارک اٹھایا اور دو سجدے کیے۔ پھر کھڑے ہوئے تو دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا۔ اس کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا: ’’یہ سورج اور چاند کسی کی موت و حیات کے باعث بے نور نہیں ہوتے بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دکھاتا ہے، جب تم اس قسم کا حادثہ دیکھو تو جلدی نماز کی طرف عاجزی کرتے ہوئے آؤ۔‘‘
تشریح:
مصنف عبدالرزاق میں روایت کے آخر میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم اس قسم کا حادثہ دیکھو تو صدقہ و خیرات کرو۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ گرہن کے وقت نماز پڑھنا، ذکر کرنا، توبہ و استغفار اور صدقہ و خیرات کرنا مستحب ہے، کیونکہ ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ مصائب اور پریشانیاں دور کرتا ہے۔‘‘ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1040
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1058
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1058
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1058
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
تمہید باب
ان میں سے اکثر احادیث پہلے گزر چکی ہیں، چنانچہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث: 1040 کے تحت، حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث: 1043 کے تحت، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی حدیث آئندہ: 1059 کے تحت، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث 1052 کے تحت اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث: 1042 کے تحت ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
اس کو ابوبکرہ، مغیرہ، ابوموسیٰ اشعری، ابن عباس اور ابن عمر ؓ نے روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے، چنانچہ آپ نے قیام میں طویل قراءت کی، پھر لمبا رکوع فرمایا۔ اس کے بعد جب اپنا سر اٹھایا تو قیام میں پھر لمبی قراءت کی جو پہلی قراءت سے قدرے کم تھی۔ اس کے بعد آپ نے رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ مختصر تھا، پھر اپنا سر مبارک اٹھایا اور دو سجدے کیے۔ پھر کھڑے ہوئے تو دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا۔ اس کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا: ’’یہ سورج اور چاند کسی کی موت و حیات کے باعث بے نور نہیں ہوتے بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دکھاتا ہے، جب تم اس قسم کا حادثہ دیکھو تو جلدی نماز کی طرف عاجزی کرتے ہوئے آؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مصنف عبدالرزاق میں روایت کے آخر میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم اس قسم کا حادثہ دیکھو تو صدقہ و خیرات کرو۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ گرہن کے وقت نماز پڑھنا، ذکر کرنا، توبہ و استغفار اور صدقہ و خیرات کرنا مستحب ہے، کیونکہ ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ مصائب اور پریشانیاں دور کرتا ہے۔‘‘ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
اس حدیث کو حضرت ابوبکرہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری اور ہشام بن عروہ نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، انہیں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں سورج کو گرہن لگا توآپ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے ساتھ نماز میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے لمبی قرات کی۔ پھر رکوع کیا اور یہ بھی بہت لمبا تھا۔ پھر سر اٹھا یا اور اس مرتبہ بھی دیر تک قرات کی مگر پہلی قرات سے کم۔ اس کے بعد آپ نے ( دوسری مرتبہ ) رکوع کیا بہت لمبا لیکن پہلے کے مقابلہ میں مختصر پھر رکوع سے سراٹھا کرآپ سجدہ میں چلے گئے اور دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا جیسے پہلی رکعت میں کر چکے تھے۔ اس کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت و حیات سے نہیں لگتا۔ البتہ یہ دونوں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنے بندوں کو دکھاتا ہے، اس لیے جب تم انہیں دیکھو توفوراً نماز کے لیے دوڑو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): In the lifetime of the Prophet (ﷺ) the sun eclipsed and the Prophet (ﷺ) stood up to offer the prayer with the people and recited a long recitation, then he performed a prolonged bowing, and then lifted his head and recited a prolonged recitation which was shorter than the first. Then he performed a prolonged bowing which was shorter than the first and then lifted his head and performed two prostrations. He then stood up for the second Raka and offered it like the first. Then he stood up and said, "The sun and the moon do not eclipse because of someone's life or death but they are two signs amongst the signs of Allah which He shows to His worshipers. So whenever you see them, make haste for the prayer."