Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: To remember Allah during the eclipse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عبداللہ بن عباس ؓا نے روایت کیا۔
1059.
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ آفتاب گرہن ہوا تو نبی ﷺ خوفزدہ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ آپ گھبرائے کہ شاید قیامت آ گئی۔ پھر آپ مسجد میں تشریف لائے اور اتنے طویل قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھائی کہ اتنی طویل نماز پڑھاتے میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’یہ نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتا ہے، یہ کسی کے مرنے جینے کی وجہ سے ظہور پذیر نہیں ہوتیں، لہٰذا جب تم ایسا دیکھو تو ذکر الہٰی کی طرف توجہ کرو، نیز دعا اور استغفار بھی خوب کرو۔‘‘
تشریح:
(1) قیامت آنے کی تمثیل راوی کی طرف سے ہے، گویا رسول اللہ ﷺ ایسے خوفزدہ ہوئے جیسے کوئی قیامت کے آ جانے سے ڈرتا ہے، ورنہ آپ جانتے تھے کہ میری موجودگی میں قیامت نہیں آئے گی۔ بہرحال ایسے حالات میں استغفار کرنا چاہیے، کیونکہ دفع بلا کے لیے یہ نسخۂ کیمیا ہے۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سورج اور چاند گرہن لگنے کی حقیقت ایسے جامع الفاظ میں بیان کی ہے کہ موجودہ سائنس کی تمام معلومات اسی ایک جملہ میں مدغم ہو کر رہ گئی ہیں۔ بلاشبہ سائنس کی جملہ اختراعات سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ ان سب کا موجد وہی ہے جس نے ان ایجادات کے لیے انسان کو ایک بیش بہا دماغ عطا فرمایا ہے۔ فتبارك الله أحسن الخالقين۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1041
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1059
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1059
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1059
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
تمہید باب
یہ روایت قبل ازیں متصل سند سے بیان ہو چکی ہے، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسے موقع پر اللہ کا ذکر کرو۔" (صحیح البخاری،الکسوف،حدیث:1052)
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ آفتاب گرہن ہوا تو نبی ﷺ خوفزدہ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ آپ گھبرائے کہ شاید قیامت آ گئی۔ پھر آپ مسجد میں تشریف لائے اور اتنے طویل قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھائی کہ اتنی طویل نماز پڑھاتے میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’یہ نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتا ہے، یہ کسی کے مرنے جینے کی وجہ سے ظہور پذیر نہیں ہوتیں، لہٰذا جب تم ایسا دیکھو تو ذکر الہٰی کی طرف توجہ کرو، نیز دعا اور استغفار بھی خوب کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) قیامت آنے کی تمثیل راوی کی طرف سے ہے، گویا رسول اللہ ﷺ ایسے خوفزدہ ہوئے جیسے کوئی قیامت کے آ جانے سے ڈرتا ہے، ورنہ آپ جانتے تھے کہ میری موجودگی میں قیامت نہیں آئے گی۔ بہرحال ایسے حالات میں استغفار کرنا چاہیے، کیونکہ دفع بلا کے لیے یہ نسخۂ کیمیا ہے۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سورج اور چاند گرہن لگنے کی حقیقت ایسے جامع الفاظ میں بیان کی ہے کہ موجودہ سائنس کی تمام معلومات اسی ایک جملہ میں مدغم ہو کر رہ گئی ہیں۔ بلاشبہ سائنس کی جملہ اختراعات سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ ان سب کا موجد وہی ہے جس نے ان ایجادات کے لیے انسان کو ایک بیش بہا دماغ عطا فرمایا ہے۔ فتبارك الله أحسن الخالقين۔
ترجمۃ الباب:
اس (مضمون کی) روایت کو حضرت ابن عباس ؓنے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے، ان سے ابوموسی اشعری ؓ نے کہ ایک دفعہ سورج گرہن ہوا تو نبی کریم ﷺ بہت گھبرا کر اٹھے اس ڈر سے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔ آپ نے مسجد میں آکر بہت ہی لمبا قیام لمبا رکوع اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں نے کبھی آپ ﷺ کو اس طرح کرتے نہیں دیکھا تھا۔ آپ ﷺ نے نماز کے بعد فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی بھیجتا ہے یہ کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں آتیں بلکہ اللہ تعالی ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو فوراً اللہ تعالی کے ذکر اور اس سے استغفار کی طرف لپکو۔
حدیث حاشیہ:
قیامت کی کچھ علامات ہیں جو پہلے ظاہر ہوں گی اور پھر اس کے بعد قیامت برپا ہو گی۔ اس حدیث میں ہے کہ آنحضور ﷺ اپنی حیات میں ہی قیامت ہو جانے سے ڈرے، حالانکہ اس وقت قیامت کی کوئی علامت نہیں پائی جا سکتی تھی۔ اس لیے اس حدیث کے ٹکڑے کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ آپ اس طرح کھڑے ہوئے جیسے ابھی قیامت آجائے گی، گویا اس سے آپ کی خشیت وخوف کی حالت کو بتانا مقصود ہے اللہ تعالی کی نشانیوں کو دیکھ کر ایک خاشع وخاضع کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ اگر کبھی گھٹا دیکھتے یا آندھی چل پڑتی تو آپ ﷺ کی اس وقت بھی یہی کیفیت ہو جاتی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ قیامت کی ابھی علامتیں ظہور پذیر نہیں ہوئی تھیں۔ لیکن جو اللہ تعالی کی شان جلالی وقہاری میں گم ہو تا ہے وہ ایسے مواقع پر غوروفکر سے کام نہیں لے سکتا۔ حضرت عمر ؓ کو خود آنحضور ﷺ کے ذریعہ جنت کی بشارت دی گئی تھی لیکن آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر حشر میں میرا معاملہ برابرسرابر پر ختم ہو جائے تو میں اسی پر راضی ہوں۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی۔ الغرض بہ نظر غور وتدبر وانصاف اگر دیکھا جائے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا چاند اور سورج گرہن کی حقیقت آپ نے ایسے جامع لفظوں میں بیان فرمادی کہ سائنس کی موجودہ معلومات اور آئندہ کی ساری معلومات اسی ایک جملہ کے اندر مدغم ہو کر رہ گئی ہیں۔ بلا شک وشبہ جملہ اختراعات جدید اور ایجادات موجودہ معلومات سائنسی سب اللہ پاک کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ سب کا اولین موجد وہی ہے جس نے انسان کو ان ایجادات کے لیے ایک بیش قیمت دماغ عطا فرمادیا۔ فتبارك اللہ أحسن الخالقین والحمد للہ رب العالمین۔قال الکرماني ھذا تمثیل من الراوي کأنه فزع کالخاشي أن یکون القیامة وإلا فکان النبي صلی اللہ علیه وسلم عالما بأن الساعة لا تقوم وھو بین أظھرھم وقد وعد اللہ إعلاء دینه علی الأدیان کلھا ولم یبلغ الکتاب أجله۔ یعنی کرمانی نے کہا کہ یہ تمثیل راوی کی طرف سے ہے گویاآپ ایسے گھبرائے جیسے کوئی قیامت کے آنے سے ڈر رہا ہو۔ ورنہ آنحضرت ﷺ تو جانتے تھے کہ آپ کی موجودگی میں قیامت قائم نہیں ہوگی، اللہ نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ قیامت سے پہلے آپ کادین جملہ ادیان پر غالب آکر رہے گا اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ ابھی قیامت کے بارے میں اللہ کا نوشتہ اپنے وقت کو نہیں پہنچا ہے۔واللہ أعلم بالصواب وما علینا إلا البلاغ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): The sun eclipsed and the Prophet (ﷺ) got up, being afraid that it might be the Hour (i.e. Day of Judgment). He went to the Mosque and offered the prayer with the longest Qiyam, bowing and prostration that I had ever seen him doing. Then he said, "These signs which Allah sends do not occur because of the life or death of somebody, but Allah makes His worshipers afraid by them. So when you see anything thereof, proceed to remember Allah, invoke Him and ask for His forgiveness."