Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: To recite aloud in the eclipse Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1066.
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے ایک منادی کرنے والے کو تعینات کیا جو الصلاة جامعة کا اعلان کرتا تھا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور دو رکعات میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ ولید کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن نمر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے بھی امام زہری سے اسی طرح سنا ہے۔ امام زہری ؓ کہتے ہیں: میں نے حضرت عروہ ؓ سے کہا: آپ کے بھائی عبداللہ بن زبیر ؓ نے تو ایسا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے جب مدینہ طیبہ میں گرہن کے موقع پر نماز پڑھی تھی تو صبح کی نماز کی طرح صرف دو رکعت ہی ادا کی تھی۔ انہوں نے کہا: ہاں، لیکن ان سے سنت میں خطا سرزد ہو گئی۔ سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے امام زہری سے جہری قراءت کے سلسلے میں ابن نمر کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) بعض حضرات نے لفظ خسوف کی بنا پر موقف اختیار کیا ہے کہ جہری قراءت چاند گرہن کے وقت تھی، حالانکہ ایک روایت میں ہے کہ جہری قراءت کا اہتمام سورج گرہن کے وقت ہوا تھا۔ بہرحال گرہن کے وقت بآواز بلند قراءت کرنی چاہیے۔ (2) سلیمان بن کثیر کی متابعت کو مسند ابوداود طیالسی میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کی نماز میں بآواز بلند قراءت کی تھی۔ سفیان بن حسین کی متابعت کو امام ترمذی اور علامہ طحاوی نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کسوف میں اونچی آواز سے قراءت کی تھی۔ حضرت علی ؓ سے بھی جہری قراءت کے متعلق مرفوع اور موقوف دونوں روایات مروی ہیں۔ چونکہ اس نماز کا باقاعدہ اعلان ہوتا ہے، پھر خطبہ بھی دیا جاتا ہے، اس لیے نماز عید کی طرح اس میں بآواز بلند قراءت کرنا ہی مستحب ہے۔ (فتح الباري:709/2 ،710)واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1048
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1066
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1066
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1066
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے ایک منادی کرنے والے کو تعینات کیا جو الصلاة جامعة کا اعلان کرتا تھا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور دو رکعات میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ ولید کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن نمر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے بھی امام زہری سے اسی طرح سنا ہے۔ امام زہری ؓ کہتے ہیں: میں نے حضرت عروہ ؓ سے کہا: آپ کے بھائی عبداللہ بن زبیر ؓ نے تو ایسا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے جب مدینہ طیبہ میں گرہن کے موقع پر نماز پڑھی تھی تو صبح کی نماز کی طرح صرف دو رکعت ہی ادا کی تھی۔ انہوں نے کہا: ہاں، لیکن ان سے سنت میں خطا سرزد ہو گئی۔ سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے امام زہری سے جہری قراءت کے سلسلے میں ابن نمر کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض حضرات نے لفظ خسوف کی بنا پر موقف اختیار کیا ہے کہ جہری قراءت چاند گرہن کے وقت تھی، حالانکہ ایک روایت میں ہے کہ جہری قراءت کا اہتمام سورج گرہن کے وقت ہوا تھا۔ بہرحال گرہن کے وقت بآواز بلند قراءت کرنی چاہیے۔ (2) سلیمان بن کثیر کی متابعت کو مسند ابوداود طیالسی میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کی نماز میں بآواز بلند قراءت کی تھی۔ سفیان بن حسین کی متابعت کو امام ترمذی اور علامہ طحاوی نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کسوف میں اونچی آواز سے قراءت کی تھی۔ حضرت علی ؓ سے بھی جہری قراءت کے متعلق مرفوع اور موقوف دونوں روایات مروی ہیں۔ چونکہ اس نماز کا باقاعدہ اعلان ہوتا ہے، پھر خطبہ بھی دیا جاتا ہے، اس لیے نماز عید کی طرح اس میں بآواز بلند قراءت کرنا ہی مستحب ہے۔ (فتح الباري:709/2 ،710)واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور امام اوزاعی ؒ نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ کے عہد میں سورج گرہن لگا تو آپ نے ایک آدمی سے اعلان کرا دیا کہ نماز ہونے والی ہے، پھر آپ نے دو رکعتیں چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھیں۔ ولید بن مسلم نے بیان کیا کہ مجھے عبد الرحمن بن نمر نے خبر دی اور انہوں نے ا بن شہاب سے سنا، اسی حدیث کی طرح زہری (ابن شہاب) نے بیان کیا کہ اس پر میں نے (عروہ سے) پوچھا کہ پھر تمہارے بھائی عبد اللہ بن زبیر نے جب مدینہ میں کسوف کی نماز پڑھائی تو کیوں ایسا کیا کہ جس طرح صبح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ نماز کسوف بھی انہوں نے پڑھائی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں انہوں نے سنت کے خلاف کیا۔ عبد الرحمن بن نمر کے ساتھ اس حدیث کو سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے بھی زہری سے روایت کیا، اس میں بھی پکار کر قراءت کرنے کا بیان ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی سنت یہ تھی کہ گرہن کی نماز میں ہر رکعت میں دو رکوع کرتے دو قیام، مگر عبد اللہ بن زبیرؓ نے جو صبح کی نماز کی طرح اس میں ہر رکعت میں ایک رکوع کیا اور ایک ہی قیام تو یہ ان کی غلطی ہے وہ چوک گئے طریقہ سنت کے خلاف کیا۔ عبد الرحمن بن نمر کے بارے میں لوگوں نے کلام کیا ہے گو زہری وغیرہ نے اس کوثقہ کہاہے، مگر یحییٰ بن معین نے اس کو ضعیف کہا ہے توا مام بخاری نے اس روایت کا ضعف رفع کرنے کے لیے یہ بیان فرما کر کہ عبد الرحمن کی متابعت سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے بھی کی ہے مگر متابعت سے حدیث قوی ہو جاتی ہے۔ حافظ نے کہا کہ ان کے سواعقیل اوراسحاق بن راشد نے بھی عبد الرحمن بن نمرکی متابعت کی ہے۔ سلیمان بن کثیر کی روایت کو امام احمد ؒ نے اور سفیان بن حسین کی روایت کو ترمذی اور طحاوی نے، عقیل کی روایت کو بھی طحاوی ؒ نے اور اسحاق بن راشد کی روایت کو دار قطنی نے وصل کیا ہے (مولانا وحید الزماں مرحوم) وقد ورد الجھر فیھا عن علي مرفوعا أخرجه ابن خزیمة وغیرہ وبه قال صاحبا أبي حنیفة وأحمد وإسحاق وابن خزیمة وابن المنذر وغیرھما من الشافعیة وابن العربي۔(فتح الباري)یعنی کسوف میں جہری قرات کے بارے میں حضرت علیؓ سے بھی مرفوعا اور موقوفا ابن خزیمہ نے روایت کی ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے دونوں شاگرد امام محمد اور امام ابویوسف بھی اسی کے قائل ہیں اور احمد اور اسحاق اور ابن خزیمہ اورابن منذر اورابن عربی وغیرہ بھی جہر کے قائل ہیں۔واللہ أعلم۔حدیث عائشة رضي اللہ عنها :جھر النبي صلی اللہ علیه وسلم في صلوة الخسوف بقرائته کے ذیل میں حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحديث ؒ فرماتے ہیں: هذا نص في أن قراءته - صلى الله عليه وسلم - في صلاة كسوف الشمس كانت جهراً لا سراً، وهو يدل على أن السنة في صلاة الكسوف هي الجهر بالقراءة لا الإسرار، ويدل لذلك أيضاً حديث أسماء عند البخاري، قال الزيلعي في نصب الراية (ج2 ص232) ، والحافظ في الدراية (ص137) ، وابن الهمام في فتح القدير، والعيني في البناية: وللبخاري من حديث أسماء بنت أبي بكر قالت: جهر النبي - صلى الله عليه وسلم - في صلاة الكسوف - انتهى. ويدل له أيضاً ما روى ابن خزيمة والطحاوي عن علي مرفوعاً وموقوفاً من الجهر بالقراءة في صلاة الكسوف، قال الطحاوي بعد رواية الحديث عن علي موقوفاً: ولو لم يجهر النبي - صلى الله عليه وسلم - حين صلى علي معه لما جهر علي أيضاً؛ لأنه علم أنه السنة فلم يترك الجهر، والله أعلم۔ (مرعاة ج:2، ص:375) یعنی یہ حدیث اس امر پر نص ہے کہ کسوف شمس کی نماز میں آنحضرت ﷺ کی قراءت جہری تھی سری نہ تھی اور یہ دلیل ہے کہ صلوۃ کسوف میں جہری قرات سنت ہے نہ کہ سری اور اس پر حضرت اسماء کی حدیث بھی دلیل ہے۔ زیلعی نے اپنی کتاب نصب الرایہ، ج:2ص: 232 پر اور حافظ نے درایہ، ص:137 پر اور ابن ہمام نے فتح القدیر میں اور عینی نے نہایہ میں لکھا ہے کہ امام بخاری کے لیے حدیث اسماء بنت ابی بکر بھی دلیل ہے جس میں ان کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسوف کی نماز میں جہری قراءت کی تھی اور ابن خزیمہ اور طحاوی میں بھی حضرت علی ؓ کی سند سے مرفوعا اور موقوفا ہر دو طرح سے نماز کسوف کی نماز میں قرات کی دلیل موجود ہے۔ حضرت علی ؓ کی اس روایت کوذکر فرما کر امام طحاوی ؒ نے فرمایا کہ جس وقت حضرت علی ؓ نے آنحضرت ﷺ کے ہمراہ کسوف کی نماز ادا کی تھی اس وقت اگر آنحضرت ﷺ جہری قراءت نہ فرماتے تو حضرت علی ؓ بھی اپنی نماز میں جہری قرات نہ کرتے۔ وہ بلا شک جانتے تھے کہ جہری سنت ہے، اس لیے انہوں نے اسے ترک نہیں کیا اورسنت نبوی کے مطابق جہری قراءت کے ساتھ اسے ادا فرمایا۔ اس بارے میں کچھ علماءمتقدمین نے اختلافات بھی کئے ہیں مگر دلائل قویہ کی رو سے ترجیح جہری قرات ہی کو حاصل ہے: وقال في السيل الجرار: رواية الجهر أصح وأكثر، وراوي الجهر مثبت وهو مقدم على النافي - انتهى. وسيأتي شيء من الكلام فيه في شرح حديث سمرة. وتأول بعض الحنفية حديث عائشة بأنه - صلى الله عليه وسلم - جهر بآية أو آيتين. قال في البدائع: نحمل ذلك على أنه جهر ببعضها اتفاقاً، كما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يسمع الآية والآيتين في صلاة الظهر أحياناً - انتهى. وهذا تأويل باطل؛ لأن عائشة كانت تصلي في حجرتها قريباً من القبلة، وكذا أختها أسماء، ومن كان كذلك لا يخفى عليه قراءة النبي - صلى الله عليه وسلم -، فلو كانت قراءته في صلاة الكسوف سراً وكان يجهر بآية وآيتين أحياناً، كما فعل كذلك في صلاة الظهر، لما عبرت عن ذلك بأنه كان يجهر بالقراءة في صلاة الكسوف، كما لم يقل أحد ممن روى قراءته في صلاة الظهر أنه جهر فيها بالقراءة۔ حوالہ مذکورہ یعنی سیل جرار میں کہا کہ جہر کی روایت صحیح اوراکثر ہیں اور جہر کی روایت کرنے والا راوی مثبت ہے جو نفی کرنے والے پر اصولا مقدم ہے بعض حنفیہ نے یہ تاویل کی ہے کہ آپ نے بعض آیات کو جہر سے پڑھ دیا تھا جیسا کہ آپ بعض دفعہ ظہر کی نماز میں بھی بعض آیات جہر سے پڑھ دیا کرتے تھے پس حدیث عائشہ میں جہری سے یہی مراد ہے اور یہ تاویل بالکل باطل ہے، کیونکہ حضرت عائشہ اوران کی بہن اسماء قبلہ کے قریب اپنے حجروں میں نماز پڑھتی تھیں اور جو ایسا ہو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات مخفی رہ سکتی ہے پس اگر آپ کی قرات کسوف کی نماز میں سری ہوتی اور آپ کبھی کبھار کوئی آیت ظہر کی طرح پڑھ دیا کرتے تو عائشہ ؓ حضرت اسماء ؓ سے جہری قراءت سے نہ تعبیر کرتیں، جیسا کہ آپ کے نماز ظہر میں بعض آیات کو جہری پڑھ دینے سے کسی نے بھی اس کو جہری قراءت پر محمول نہیں کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Al-Auza'I and others said that they had heard Az-Zuhi from 'Ursa from 'Aisha (RA) saying, "In the life-time of Allah's Apostle (ﷺ) the sun eclipsed, and he made a person to announce: 'Prayer in congregation.' He led the prayer and performed four bowing and four prostrations in two Rakat." Narrated Al-Walid that 'Abdur-Rahman bin Namir had informed him that he had heard the same. Ibn Shihab (RA) heard the same. Az-Zuhrl said, "I asked ('Ursa), 'What did your brother 'Abdullah bin AzZubair do? He prayed two Rakat (of the eclipse prayer) like the morning prayer, when he offered the (eclipse) prayer in Median.' 'Ursa replied that he had missed (i.e. did not pray according to) the Prophet's tradition." Sulaiman bin Kathir and Sufyan bin Husain narrated from Az-Zuhri that the prayer for the eclipse used to be offered with loud recitation.