Sahi-Bukhari:
Prostration During Recital of Qur'an
(Chapter: Prostrations during the recitation of the Qur'an)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1067.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے مکہ مکرمہ میں سورہ نجم تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا۔ آپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان سب نے سجدہ کیا۔ ایک عمر رسیدہ شخص کے علاوہ (کہ وہ سجدہ ریز نہ ہوا)، اس نے مٹھی بھر کنکریاں یا مٹی لے کر اسے اپنی پیشانی تک اٹھایا اور کہنے لگا: مجھے یہی کافی ہے۔ اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ بحالت کفر قتل ہوا۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ سورۂ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدۂ تلاوت کا نزول ہوا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4863) یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ سجدہ ہائے تلاوت کے سلسلے میں اس حدیث کو پہلے لائے ہیں۔ لیکن اعتراض ہو سکتا ہے کہ سورۂ علق اس سے قبل نازل ہوئی تھی جس میں سجدۂ تلاوت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات پہلے نازل ہوئی تھیں جن میں سجدۂ تلاوت نہیں ہے اور سجدے پر مشتمل آیات کا نزول سورۂ نجم کے بعد ہوا ہے، یعنی سورۂ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدۂ تلاوت بھی ہے اور اسے رسول اللہ ﷺ نے علانیہ طور پر مشرکین مکہ کے سامنے پڑھ کر سنایا ہے۔ (فتح الباري:712/2) (2) اس میں اس کے طریقے کی طرف بھی اشارہ ہے کہ سجدہ زمین پر ہونا چاہیے، مٹی یا کنکریاں ہاتھ میں لے کر پیشانی پر رکھ لینا مشرکین کا طریقہ ہے۔ مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔ (3) ایک روایت میں اس عمر رسیدہ شخص کی صراحت ہے جس نے سجدۂ تلاوت نہیں کیا تھا۔ وہ امیہ بن خلف تھا جس نے مٹی ہاتھ میں لے کر اس پر اپنا ماتھا ٹیک دیا تھا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4863) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ سورۂ نجم کی تلاوت کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مسلمانوں کے ساتھ مشرکین نے بھی سجدہ کیا تھا۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو اسلام کی دعوت دی تو تمام لوگوں نے اس دعوت کو قبول کر لیا تھا۔ اس وقت اتنے لوگ آپ کے ساتھ تھے کہ بھیڑ کی وجہ سے کچھ لوگوں کو سجدۂ تلاوت کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تھی، لیکن جب قریش کے سردار ولید بن مغیرہ اور ابوجہل وغیرہ طائف سے مکہ آئے تو ان کے گمراہ کرنے سے مشرکین اپنے آبائی دین کی طرف واپس لوٹ گئے۔ یہ لوگ اپنے سرداروں کو خوش کرنے کے لیے مرتد ہوئے تھے۔ دین اسلام سے بیزار ہو کر کوئی آدمی مرتد نہیں ہوا جیسا کہ حضرت ابو سفیان ؓ نے حدیث ہرقل میں اس کا اعتراف کیا تھا۔ (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث:7) حافظ ابن حجر ؒ نے مشرکین کے سجدہ کرنے کی یہی وجہ بیان کی ہے۔ (فتح الباري:712/2) لیکن انہیں نقل واقعہ کے وقت ان کی موجودہ حالت کی وجہ سے مشرکین کہا گیا کیونکہ اعتبار انجام کا ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ چونکہ اس روایت میں معبودان باطلہ لات، منات اور عزیٰ کا ذکر ہے، اس لیے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی تو مشرکین خوشی میں آ کر اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدے میں گر گئے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں جو غرانیق کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ سرے سے بے بنیاد اور غلط ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: حق یہ ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کا جلال و جبروت دیکھ کر اور قرآن کریم کے مواعظ عقلیہ سے متاثر ہو کر سجدہ کیا، ان کے ہاں کوئی اختیار ہی باقی نہیں رہا تھا اور یہ کوئی بعید از عقل بات نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1049
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1067
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1067
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1067
تمہید کتاب
سجدۂ تلاوت کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اس کا کلام سن کر سجدے میں گر جاتے ہیں اور ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو کلام الٰہی سن کر سجدہ ریز نہیں ہوتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴿١٠٧﴾) "اس قرآن سے پہلے جنہیں علم دیا گیا ہے جب انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (بنی اسرائیل107:17)ایک دوسرے مقام پر فرمایا: (إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩ ﴿٥٨﴾) "برگزیدہ لوگوں پر جب اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (مریم58:19)دوسرے لوگوں پر بایں الفاظ عتاب فرمایا: (فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٠﴾ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ ۩ ﴿٢١﴾) "پھر ان (کفار) کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔" (الانشقاق84: 20،21)سجدۂ تلاوت بجا لانے سے شیطان روتا پیٹتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب ابن آدم کسی سجدے والی آیت کو تلاوت کرتا اور پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: ہائے میری ہلاکت، کہ ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کر لیا، لہذا اس کے لیے جنت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کر دیا، لہذا میرے لیے جہنم ہے۔ (صحیح مسلم،الایمان،حدیث:244(81))سجدۂ تلاوت کی حیثیت کیا ہے؟ ان کی تعداد کتنی ہے؟ نماز میں یا نماز کے علاوہ سجدہ تلاوت مشروع ہے؟ سجدۂ تلاوت کی شرائط کیا ہیں؟ اس میں کون سی دعا پڑھنی ہے؟ ایک مجلس میں بار بار آیت سجدہ تلاوت کی جائے تو کیا حکم ہے؟ سجدۂ تلاوت کا کیا طریقہ ہے؟ کیا اس کے بعد سلام پھیرنا ہے؟ نیز کیا آیت سجدہ سننے پر سجدہ کرنا مشروع ہے؟ اور اس طرح کے دیگر مسائل کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً پندرہ (15) احادیث پیش کی ہیں اور ان پر بارہ (12) عنوان قائم کر کے سجدۂ تلاوت سے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اسنادی حقائق و رموز بھی ذکر کیے ہیں جنہیں ہم ان شاءاللہ تفصیل سے بیان کریں گے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کے تحت پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں جن میں دو (2) معلق اور نو (9) مکرر ہیں۔ خالص احادیث کی تعداد چھ (6) ہے۔ امام مسلم نے دو (2) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں عملی تبدیلی لانے کے لیے صحیح بخاری کا مطالعہ کریں۔ اسے پڑھتے وقت ہماری معروضات کو بھی مدنظر رکھیں، اس طرح جہاں ہمارے قلوب و اذہان میں کشادگی پیدا ہو گی وہاں امام بخاری رحمہ اللہ سے تعلق خاطر کے لیے بھی راستہ ہموار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کا حق دار بنائے اور زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ آمین
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے مکہ مکرمہ میں سورہ نجم تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا۔ آپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان سب نے سجدہ کیا۔ ایک عمر رسیدہ شخص کے علاوہ (کہ وہ سجدہ ریز نہ ہوا)، اس نے مٹھی بھر کنکریاں یا مٹی لے کر اسے اپنی پیشانی تک اٹھایا اور کہنے لگا: مجھے یہی کافی ہے۔ اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ بحالت کفر قتل ہوا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ سورۂ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدۂ تلاوت کا نزول ہوا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4863) یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ سجدہ ہائے تلاوت کے سلسلے میں اس حدیث کو پہلے لائے ہیں۔ لیکن اعتراض ہو سکتا ہے کہ سورۂ علق اس سے قبل نازل ہوئی تھی جس میں سجدۂ تلاوت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات پہلے نازل ہوئی تھیں جن میں سجدۂ تلاوت نہیں ہے اور سجدے پر مشتمل آیات کا نزول سورۂ نجم کے بعد ہوا ہے، یعنی سورۂ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدۂ تلاوت بھی ہے اور اسے رسول اللہ ﷺ نے علانیہ طور پر مشرکین مکہ کے سامنے پڑھ کر سنایا ہے۔ (فتح الباري:712/2) (2) اس میں اس کے طریقے کی طرف بھی اشارہ ہے کہ سجدہ زمین پر ہونا چاہیے، مٹی یا کنکریاں ہاتھ میں لے کر پیشانی پر رکھ لینا مشرکین کا طریقہ ہے۔ مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔ (3) ایک روایت میں اس عمر رسیدہ شخص کی صراحت ہے جس نے سجدۂ تلاوت نہیں کیا تھا۔ وہ امیہ بن خلف تھا جس نے مٹی ہاتھ میں لے کر اس پر اپنا ماتھا ٹیک دیا تھا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4863) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ سورۂ نجم کی تلاوت کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مسلمانوں کے ساتھ مشرکین نے بھی سجدہ کیا تھا۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو اسلام کی دعوت دی تو تمام لوگوں نے اس دعوت کو قبول کر لیا تھا۔ اس وقت اتنے لوگ آپ کے ساتھ تھے کہ بھیڑ کی وجہ سے کچھ لوگوں کو سجدۂ تلاوت کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تھی، لیکن جب قریش کے سردار ولید بن مغیرہ اور ابوجہل وغیرہ طائف سے مکہ آئے تو ان کے گمراہ کرنے سے مشرکین اپنے آبائی دین کی طرف واپس لوٹ گئے۔ یہ لوگ اپنے سرداروں کو خوش کرنے کے لیے مرتد ہوئے تھے۔ دین اسلام سے بیزار ہو کر کوئی آدمی مرتد نہیں ہوا جیسا کہ حضرت ابو سفیان ؓ نے حدیث ہرقل میں اس کا اعتراف کیا تھا۔ (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث:7) حافظ ابن حجر ؒ نے مشرکین کے سجدہ کرنے کی یہی وجہ بیان کی ہے۔ (فتح الباري:712/2) لیکن انہیں نقل واقعہ کے وقت ان کی موجودہ حالت کی وجہ سے مشرکین کہا گیا کیونکہ اعتبار انجام کا ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ چونکہ اس روایت میں معبودان باطلہ لات، منات اور عزیٰ کا ذکر ہے، اس لیے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی تو مشرکین خوشی میں آ کر اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدے میں گر گئے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں جو غرانیق کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ سرے سے بے بنیاد اور غلط ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: حق یہ ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کا جلال و جبروت دیکھ کر اور قرآن کریم کے مواعظ عقلیہ سے متاثر ہو کر سجدہ کیا، ان کے ہاں کوئی اختیار ہی باقی نہیں رہا تھا اور یہ کوئی بعید از عقل بات نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے ابو اسحاق نے انہوں نے کہا کہ میں نے اسود سے سنا انہوں نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے کہ مکہ میں نبی کریم ﷺ نے سورۃ النجم کی تلاوت کی اور سجدہ تلاوت کیا آپ کے پاس جتنے آدمی تھے (مسلمان اور کافر) ان سب نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا، البتہ ایک بوڑھا شخص (امیہ بن خلف) اپنے ہاتھ میں کنکری یا مٹی اٹھا کر اپنی پیشانی تک لے گیا اور کہا میرے لیے یہی کافی ہے میں نے دیکھا کہ بعد میں وہ بوڑھا کافر ہی رہ کر مارا گیا۔
حدیث حاشیہ:
شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے لکھا ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ نے سورۃ نجم کی تلاوت کی تو مشرکین اس درجہ مقہور ومغلوب ہو گئے کہ آپ نے آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدہ میں چلے گئے۔ اس باب میں یہ تاویل سب سے زیادہ مناسب اور واضح ہے حضرت موسی ؑ کے ساتھ بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب فرعون کے بلائے ہوئے جادوگروں کے مقابلہ میں آپ کاعصا سانپ ہوگیا اور ان کے شعبدوں کی حقیقت کھل گئی تو سارے جادوگر سجدہ میں پڑ گئے۔ یہ بھی حضرت موسی ؑ کے معجزہ سے مدہوش ومغلوب ہو گئے تھے۔ اس وقت انہیں اپنے اوپر قابونہ رہا تھا۔ اور سب بیک زبان بول اٹھے تھے کہ امنا برب موسی وھارون ؑ یہی کیفیت مشرکین مکہ کی ہوگئی تھی۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ آیت سجدہ پر پہنچے تو آپ نے سجدہ کیا اور ہم نے سجدہ کیا۔ دارقطنی کی روایت میں ہے کہ جن وانس تک نے سجدہ کیا۔ جس بوڑھے نے سجدہ نہیں کیا تھا وہ امیہ بن خلف تھا۔ علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: أما المصنف في روایة إسرائیل أن النجم أول سورة أنزلت فیھا سجدة وھذا ھوالسر في بداءة المصنف في ھذہ الأبواب بھذا الحدیث۔یعنی مصنف نے روایت اسرائیل میں بتایا کہ سورۃ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدہ نازل ہوا یہاں بھی ان ابواب کو اسی حدیث سے شروع کرنے میں یہی بھید ہے، یوں تو سجدہ سورۃ اقرا میں اس سے پہلے بھی نازل ہو چکا تھا، آنحضرت ﷺ نے جس کا کھل کر اعلان فرمایا وہ یہی سورۃہ نجم ہے اور اس میں یہ سجدہ ہے: إن المراد أول سورة فیھا سجدة تلاوتھا جھرا علی المشرکین۔(فتح الباري)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Masud : The Prophet (ﷺ) recited Suratan-Najm (103) at Makkah and prostrated while reciting it and those who were with him did the same except an old man who took a handful of small stones or earth and lifted it to his forehead and said, "This is sufficient for me." Later on, I saw him killed as a non-believer.