Sahi-Bukhari:
Prostration During Recital of Qur'an
(Chapter: To prostrate during the recitation of Salat Tanzil - As-Sajda (No. 32))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1068.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جمعہ کے دن نماز فجر میں الم تنزيل السجدة اور ﴿هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ﴾ پڑھا کرتے تھے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ الم تنزیل السجدہ میں سجدہ ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے اس سورت کے نام سے سجدہ ثابت کیا ہے۔ ممکن ہے امام بخاری ؒ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہو جن میں سجدے کی صراحت ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: میں نے ایک دن جمعہ کی نماز فجر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے ادا کی تو آپ نے اس میں سجدے والی سورت پڑھی اور اس میں سجدہ کیا۔ اس کے علاوہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر میں تنزیل السجدہ تلاوت فرمائی اور اس میں آپ نے سجدہ کیا، لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے۔ (فتح الباري:487/2) (2) اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ امام بخاری ؒ کے تراجم کی دو اقسام ہیں: (1) فقہیہ (2) شارحہ۔ فقہیہ سے مراد وہ عناوین ہیں جن میں کسی فقہی مسئلے کو ثابت کیا جاتا ہے اور شارحہ سے مراد وہ عناوین ہیں جن میں کسی حدیث کی تشریح کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا عنوان بھی فقہیہ نہیں بلکہ شارحہ ہے۔ عنوان سے آپ نے حدیث کی وضاحت فرمائی ہے کہ اس سورت میں سجدۂ تلاوت ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1050
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1068
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1068
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1068
تمہید کتاب
سجدۂ تلاوت کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اس کا کلام سن کر سجدے میں گر جاتے ہیں اور ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو کلام الٰہی سن کر سجدہ ریز نہیں ہوتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴿١٠٧﴾) "اس قرآن سے پہلے جنہیں علم دیا گیا ہے جب انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (بنی اسرائیل107:17)ایک دوسرے مقام پر فرمایا: (إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩ ﴿٥٨﴾) "برگزیدہ لوگوں پر جب اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (مریم58:19)دوسرے لوگوں پر بایں الفاظ عتاب فرمایا: (فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٠﴾ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ ۩ ﴿٢١﴾) "پھر ان (کفار) کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔" (الانشقاق84: 20،21)سجدۂ تلاوت بجا لانے سے شیطان روتا پیٹتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب ابن آدم کسی سجدے والی آیت کو تلاوت کرتا اور پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: ہائے میری ہلاکت، کہ ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کر لیا، لہذا اس کے لیے جنت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کر دیا، لہذا میرے لیے جہنم ہے۔ (صحیح مسلم،الایمان،حدیث:244(81))سجدۂ تلاوت کی حیثیت کیا ہے؟ ان کی تعداد کتنی ہے؟ نماز میں یا نماز کے علاوہ سجدہ تلاوت مشروع ہے؟ سجدۂ تلاوت کی شرائط کیا ہیں؟ اس میں کون سی دعا پڑھنی ہے؟ ایک مجلس میں بار بار آیت سجدہ تلاوت کی جائے تو کیا حکم ہے؟ سجدۂ تلاوت کا کیا طریقہ ہے؟ کیا اس کے بعد سلام پھیرنا ہے؟ نیز کیا آیت سجدہ سننے پر سجدہ کرنا مشروع ہے؟ اور اس طرح کے دیگر مسائل کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً پندرہ (15) احادیث پیش کی ہیں اور ان پر بارہ (12) عنوان قائم کر کے سجدۂ تلاوت سے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اسنادی حقائق و رموز بھی ذکر کیے ہیں جنہیں ہم ان شاءاللہ تفصیل سے بیان کریں گے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کے تحت پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں جن میں دو (2) معلق اور نو (9) مکرر ہیں۔ خالص احادیث کی تعداد چھ (6) ہے۔ امام مسلم نے دو (2) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں عملی تبدیلی لانے کے لیے صحیح بخاری کا مطالعہ کریں۔ اسے پڑھتے وقت ہماری معروضات کو بھی مدنظر رکھیں، اس طرح جہاں ہمارے قلوب و اذہان میں کشادگی پیدا ہو گی وہاں امام بخاری رحمہ اللہ سے تعلق خاطر کے لیے بھی راستہ ہموار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کا حق دار بنائے اور زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ آمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جمعہ کے دن نماز فجر میں الم تنزيل السجدة اور ﴿هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ﴾ پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ الم تنزیل السجدہ میں سجدہ ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے اس سورت کے نام سے سجدہ ثابت کیا ہے۔ ممکن ہے امام بخاری ؒ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہو جن میں سجدے کی صراحت ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: میں نے ایک دن جمعہ کی نماز فجر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے ادا کی تو آپ نے اس میں سجدے والی سورت پڑھی اور اس میں سجدہ کیا۔ اس کے علاوہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر میں تنزیل السجدہ تلاوت فرمائی اور اس میں آپ نے سجدہ کیا، لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے۔ (فتح الباري:487/2) (2) اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ امام بخاری ؒ کے تراجم کی دو اقسام ہیں: (1) فقہیہ (2) شارحہ۔ فقہیہ سے مراد وہ عناوین ہیں جن میں کسی فقہی مسئلے کو ثابت کیا جاتا ہے اور شارحہ سے مراد وہ عناوین ہیں جن میں کسی حدیث کی تشریح کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا عنوان بھی فقہیہ نہیں بلکہ شارحہ ہے۔ عنوان سے آپ نے حدیث کی وضاحت فرمائی ہے کہ اس سورت میں سجدۂ تلاوت ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یہ حدیث ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہے مگر حضرت امام ؓ نے اپنی وسعت نظری کی بنا پر اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر دیا جسے طبرانی نے معجم صغیر میں نکالا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فجر کی نماز میں سورہ الم تنزیل کی تلاوت فرمائی اور سجدہ تلاوت کیا یہ روایت حضرت امام کے شرائط پر نہ تھی۔ اس لیے یہاں صرف یہ روایت لائے جس میں خالی پہلی رکعت میں الم تنزیل پڑھنے کا ذکر ہے۔ اس میں بھی یہ اشارہ ہے کہ اگر چہ احادیث میں سجدہ تلاوت کاذکر نہیں مگر اس میں سجدہ تلاوت ہے۔ لہٰذا اعلاناً آپ نے سجدہ کیا ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: لَمْ أَرَ فِي شَيْءٍ مِنَ الطُّرُقِ التَّصْرِيحَ بِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ لَمَّا قَرَأَ سُورَةَ تَنْزِيلٌ السَّجْدَةَ فِي هَذَا الْمَحَلِّ إِلَّا فِي كِتَابِ الشَّرِيعَةِ لِابْنِ أَبِي دَاوُدَ مِنْ طَرِيقٍ أُخْرَى عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ غَدَوْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ سُورَةً فِيهَا سَجْدَةٌ فَسَجَدَ الْحَدِيثَ وَفِي إِسْنَادِهِ مَنْ يُنْظَرُ فِي حَالِهِ ولِلطَّبَرَانِيِّ فِي الصَّغِيرِ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ فِي تَنْزِيلٌ السَّجْدَةَ لَكِنْ فِي إِسْنَادِهِ ضَعْفٌ۔ یعنی میں نے صراحتا کسی روایت میں یہ نہیں پایا کہ آنحضرت ﷺ نے جب اس مقام پر ( یعنی نماز فجر میں ) سورۃ الم تنزیل سجدہ کو پڑھا آپ نے یہاں سجدہ کیا ہو ہاں کتاب الشریعۃ ابن ابی داؤد میں ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے ایک جمعہ کے دن فجر کی نماز آنحضرت ﷺ کے پیچھے ادا کی اور آپ نے سجدہ والی سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ طبرانی میں حدیث علی ؓ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فجر کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ ان سورتوں کے فجر کی نماز میں جمعہ کے دن بلاناغہ پڑھنے میں بھید یہ ہے کہ ان میں پیدائش آدم پھر قیامت کے واقع ہونے کا ذکر ہے۔ آدم کی پیدائش جمعہ کے ہی دن ہوئی اور قیامت بھی جمعہ کے ہی دن قائم ہوگی جمعہ کے دن نماز فجر میں ان ہر دو سورتوں کو ہمیشگی کے ساتھ پڑھنا آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ سورہ الم تنزیل میں سجدہ تلاوت ہے پس یہ ممکن نہیں کہ آنحضرت ﷺ اس سورہ شریفہ کو پڑھیں اور سجدہ تلاوت نہ کریں۔ پھر طبرانی وغیرہ میں صراحت کے ساتھ اس امر کا ذکر بھی موجود ہے اس تفصیل کے بعد علامہ ابن حجر ؒ نے جو نفی فرمائی ہے وہ اسی حقیقت بیان کردہ کی روشنی میں مطالعہ کرنی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): On Fridays the Prophet (ﷺ) used to recite Alf Lam Mim Tanzil-As-Sajda (in the first Raka) and Hal ata'alal-lnsani i.e. Suratad-Dahr in the Fajr prayer.