Sahi-Bukhari:
Prostration During Recital of Qur'an
(Chapter: The prostration in An-Najm (No. 53))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عبداللہ بن عباس ؓ نے نبی کریمﷺ سے نقل کیا ہے۔
1070.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورہ نجم تلاوت کی تو اس میں سجدہ کیا۔ ایک آدمی کے علاوہ قوم میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ اس نے کنکریوں یا مٹی کی مٹھی بھر لی اور اسے اپنے چہرے کی طرف اٹھا کر کہنے لگا: مجھے تو یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: میں نے اسے دیکھا کہ وہ بعد میں (میدان بدر میں) بحالت کفر قتل ہوا۔
تشریح:
اس شخص کے متعلق مختلف روایات ہیں: سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ وہ ولید بن مغیرہ تھا لیکن وہ میدان بدر میں قتل نہیں ہوا۔ بعض روایات میں سعید بن عاص اور ابولہب کا ذکر ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ اس وقت سجدہ نہ کرنے والے وہ قریشی تھے جو شہرت کے طلبگار تھے۔ سنن نسائی میں ہے کہ وہ مطلب بن ابی وداعہ تھا، لیکن یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا۔ امام بخاری ؒ نے خود ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ وہ امیہ بن خلف تھا۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے صرف ایک آدمی کو دیکھا ہو گا جس نے کنکریوں سے مٹھی بھر کر انہیں اپنے چہرے کی طرف اٹھا لیا تھا اور اسے انہوں نے بیان کر دیا۔ (فتح الباري:712/2) واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1052
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1070
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1070
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1070
تمہید کتاب
سجدۂ تلاوت کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اس کا کلام سن کر سجدے میں گر جاتے ہیں اور ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو کلام الٰہی سن کر سجدہ ریز نہیں ہوتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴿١٠٧﴾) "اس قرآن سے پہلے جنہیں علم دیا گیا ہے جب انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (بنی اسرائیل107:17)ایک دوسرے مقام پر فرمایا: (إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩ ﴿٥٨﴾) "برگزیدہ لوگوں پر جب اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (مریم58:19)دوسرے لوگوں پر بایں الفاظ عتاب فرمایا: (فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٠﴾ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ ۩ ﴿٢١﴾) "پھر ان (کفار) کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔" (الانشقاق84: 20،21)سجدۂ تلاوت بجا لانے سے شیطان روتا پیٹتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب ابن آدم کسی سجدے والی آیت کو تلاوت کرتا اور پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: ہائے میری ہلاکت، کہ ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کر لیا، لہذا اس کے لیے جنت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کر دیا، لہذا میرے لیے جہنم ہے۔ (صحیح مسلم،الایمان،حدیث:244(81))سجدۂ تلاوت کی حیثیت کیا ہے؟ ان کی تعداد کتنی ہے؟ نماز میں یا نماز کے علاوہ سجدہ تلاوت مشروع ہے؟ سجدۂ تلاوت کی شرائط کیا ہیں؟ اس میں کون سی دعا پڑھنی ہے؟ ایک مجلس میں بار بار آیت سجدہ تلاوت کی جائے تو کیا حکم ہے؟ سجدۂ تلاوت کا کیا طریقہ ہے؟ کیا اس کے بعد سلام پھیرنا ہے؟ نیز کیا آیت سجدہ سننے پر سجدہ کرنا مشروع ہے؟ اور اس طرح کے دیگر مسائل کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً پندرہ (15) احادیث پیش کی ہیں اور ان پر بارہ (12) عنوان قائم کر کے سجدۂ تلاوت سے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اسنادی حقائق و رموز بھی ذکر کیے ہیں جنہیں ہم ان شاءاللہ تفصیل سے بیان کریں گے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کے تحت پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں جن میں دو (2) معلق اور نو (9) مکرر ہیں۔ خالص احادیث کی تعداد چھ (6) ہے۔ امام مسلم نے دو (2) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں عملی تبدیلی لانے کے لیے صحیح بخاری کا مطالعہ کریں۔ اسے پڑھتے وقت ہماری معروضات کو بھی مدنظر رکھیں، اس طرح جہاں ہمارے قلوب و اذہان میں کشادگی پیدا ہو گی وہاں امام بخاری رحمہ اللہ سے تعلق خاطر کے لیے بھی راستہ ہموار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کا حق دار بنائے اور زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس معلق روایت کو اپنی صحیح میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،سجودالقرآن،حدیث:1071)
اس کو عبداللہ بن عباس ؓ نے نبی کریمﷺ سے نقل کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورہ نجم تلاوت کی تو اس میں سجدہ کیا۔ ایک آدمی کے علاوہ قوم میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ اس نے کنکریوں یا مٹی کی مٹھی بھر لی اور اسے اپنے چہرے کی طرف اٹھا کر کہنے لگا: مجھے تو یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: میں نے اسے دیکھا کہ وہ بعد میں (میدان بدر میں) بحالت کفر قتل ہوا۔
حدیث حاشیہ:
اس شخص کے متعلق مختلف روایات ہیں: سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ وہ ولید بن مغیرہ تھا لیکن وہ میدان بدر میں قتل نہیں ہوا۔ بعض روایات میں سعید بن عاص اور ابولہب کا ذکر ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ اس وقت سجدہ نہ کرنے والے وہ قریشی تھے جو شہرت کے طلبگار تھے۔ سنن نسائی میں ہے کہ وہ مطلب بن ابی وداعہ تھا، لیکن یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا۔ امام بخاری ؒ نے خود ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ وہ امیہ بن خلف تھا۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے صرف ایک آدمی کو دیکھا ہو گا جس نے کنکریوں سے مٹھی بھر کر انہیں اپنے چہرے کی طرف اٹھا لیا تھا اور اسے انہوں نے بیان کر دیا۔ (فتح الباري:712/2) واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ت ابن عباس ؓنے اسے نبی ﷺ سے بیان فرمایا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ابو اسحاق سے بیان کیا، ان سے اسود نے، ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے سورۃ نجم کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اس وقت قوم کا کوئی فرد (مسلمان اور کافر) بھی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ البتہ ایک شخص نے ہاتھ میں کنکری یا مٹی لے کر اپنے چہرہ تک اٹھائی اور کہا کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ بعد میں میں نے دیکھا کہ وہ کفرکی حالت ہی میں قتل ہوا۔ (یہ امیہ بن خلف تھا)
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے سورۃ نجم میں سجدہ تلاوت بھی ثابت ہوا۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: فلعل جمیع من وفق للسجود یومئذ ختم له بالحسنیٰ فأسلم لبرکة السجود۔یعنی جن جن لوگوں نے اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کر لیا ( خواہ ان میں سے کافروں کی نیت کچھ بھی ہو بہرحال ) ان کو سجدہ کی برکت سے اسلام لانے کی توفیق ہوئی اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوا۔ بعد کے واقعات سے ثابت ہے کہ کفار مکہ بڑی تعداد میں مسلمان ہوگئے تھے جن میں یقینا اس موقعہ پر یہ سجدہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔ مگر امیہ بن خلف نے آج بھی سجدہ نہیں کیا بلکہ رسماً مٹی کو ہاتھ میں لے کر سر سے لگا لیا اس تکبر کی وجہ سے اس کو اسلام نصیب نہیں ہوا۔ آخر کفر کی ہی حالت میں وہ مارا گیا۔ خلاصہ یہ کہ سورۃ نجم میں بھی سجدہ ہے اور یہ عزائم السجود میں شمار کر لیا گیا ہے، یعنی جن سجدوں کا ادا کرنا ضروری ہے: وعن علي ما ورد الأمر فیه بالسجود عزیمة۔حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ جن آیات میں سجدہ کرنے کاحکم صادر ہوا ہے وہ سجدے ضروری ہیں۔ (فتح) مگر ضروری کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ فرض واجب ہوں جب کہ سجدہ تلاوت سنت کے درجہ میں ہے یہ امر علیحدہ ہے کہ ہر سنت نبوی پر عمل کرنا ایک مسلمان کے لیے سعادت دارین کا واحد وسیلہ ہے۔ واللہ أعلم وعلمه أتم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Masud (RA): The Prophet (ﷺ) recited Surat-an-Najm (53) and prostrated while reciting it and all the people prostrated and a man amongst the people took a handful of stones or earth and raised it to his face and said, "This is sufficient for me." Later on I saw him killed as a non-believer.