باب: سننے والا اسی وقت سجدہ کرے جب پڑھنے والا کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prostration During Recital of Qur'an
(Chapter: Whoever prostrated with the prostration of the reciter)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن مسعود ؓ نے تمیم بن حذلم سے کہا کہ وہ لڑکا تھا اس نے سجدے کی آیت پڑھی سجدہ کر۔ کیونکہ تو اس سجدے میں ہمارا امام ہے۔
1075.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ہمارے سامنے جب وہ سورت تلاوت کرتے جس میں سجدہ ہوتا تو آپ خود بھی سجدہ کرتے اور ہم بھی سجدہ کرتے تھے یہاں تک کہ بھیڑ کی وجہ سے بعض لوگوں کو پیشانی رکھنے کی بھی جگہ نہیں ملتی تھی۔
تشریح:
(1) ممکن ہے امام بخاری ؒ کا رجحان اس طرف ہو کہ جب قاری سجدہ کرے تو سامع کو سجدہ کرنا چاہیے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے اثر سے معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ ایک لڑکے نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیت سجدہ تلاوت کی، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرنے لگا کہ آپ کب سجدہ کرتے ہیں، جب آپ نے سجدہ نہ کیا تو عرض کرنے لگا: اس آیت میں سجدہ ضروری نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں لیکن تو اس سلسلے میں امام ہے، اگر تو سجدہ کرتا ہے تو ہم بھی کرتے۔ اسے ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے۔ اس کے سب راوی ثقہ ہیں لیکن یہ روایت مرسل ہے۔ (2) اس سلسلے میں جمہور کا موقف یہ ہے کہ سننے والے کو ہر حالت میں سجدہ کرنا چاہیے، خواہ پڑھنے والا سجدہ کرے یا نہ کرے۔ وہ بے وضو ہو یا نابالغ یا عورت ہو، بہرحال آیت سجدہ سننے والے کو چاہیے کہ وہ سجدہ کرے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: اس مسئلے میں مختلف مذاہب ہیں: بعض حضرات کے نزدیک سننے والے پر سجدۂ تلاوت واجب ہے، خواہ پڑھنے والا کرے یا نہ کرے، خواہ سننے والے کے کان میں اتفاقاً آیت سجدہ کی آواز پڑ جائے یا قصداً اسے سماعت کرے، لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ جب تلاوت کرنے والا آیت سجدہ پڑھے تو سننے والا اس وقت سجدہ کرنے کا پابند ہو گا جب وہ سننے کا ارادہ کرے۔ اتفاقاً کان میں آواز پڑ جانے سے سجدہ ضروری نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1057
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1075
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1075
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1075
تمہید کتاب
سجدۂ تلاوت کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اس کا کلام سن کر سجدے میں گر جاتے ہیں اور ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو کلام الٰہی سن کر سجدہ ریز نہیں ہوتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴿١٠٧﴾) "اس قرآن سے پہلے جنہیں علم دیا گیا ہے جب انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (بنی اسرائیل107:17)ایک دوسرے مقام پر فرمایا: (إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩ ﴿٥٨﴾) "برگزیدہ لوگوں پر جب اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (مریم58:19)دوسرے لوگوں پر بایں الفاظ عتاب فرمایا: (فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٠﴾ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ ۩ ﴿٢١﴾) "پھر ان (کفار) کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔" (الانشقاق84: 20،21)سجدۂ تلاوت بجا لانے سے شیطان روتا پیٹتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب ابن آدم کسی سجدے والی آیت کو تلاوت کرتا اور پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: ہائے میری ہلاکت، کہ ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کر لیا، لہذا اس کے لیے جنت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کر دیا، لہذا میرے لیے جہنم ہے۔ (صحیح مسلم،الایمان،حدیث:244(81))سجدۂ تلاوت کی حیثیت کیا ہے؟ ان کی تعداد کتنی ہے؟ نماز میں یا نماز کے علاوہ سجدہ تلاوت مشروع ہے؟ سجدۂ تلاوت کی شرائط کیا ہیں؟ اس میں کون سی دعا پڑھنی ہے؟ ایک مجلس میں بار بار آیت سجدہ تلاوت کی جائے تو کیا حکم ہے؟ سجدۂ تلاوت کا کیا طریقہ ہے؟ کیا اس کے بعد سلام پھیرنا ہے؟ نیز کیا آیت سجدہ سننے پر سجدہ کرنا مشروع ہے؟ اور اس طرح کے دیگر مسائل کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً پندرہ (15) احادیث پیش کی ہیں اور ان پر بارہ (12) عنوان قائم کر کے سجدۂ تلاوت سے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اسنادی حقائق و رموز بھی ذکر کیے ہیں جنہیں ہم ان شاءاللہ تفصیل سے بیان کریں گے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کے تحت پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں جن میں دو (2) معلق اور نو (9) مکرر ہیں۔ خالص احادیث کی تعداد چھ (6) ہے۔ امام مسلم نے دو (2) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں عملی تبدیلی لانے کے لیے صحیح بخاری کا مطالعہ کریں۔ اسے پڑھتے وقت ہماری معروضات کو بھی مدنظر رکھیں، اس طرح جہاں ہمارے قلوب و اذہان میں کشادگی پیدا ہو گی وہاں امام بخاری رحمہ اللہ سے تعلق خاطر کے لیے بھی راستہ ہموار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کا حق دار بنائے اور زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
اس اثر کو سعید بن منصور نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: تمیم بن حذلم کہتے ہیں: میں ابھی بچہ ہی تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو قرآن سنایا کرتا تھا۔ میں نے ایک دن آیت سجدہ تلاوت کی تو انہوں نے فرمایا: تو اس سلسلے میں ہمارا امام ہے۔ (فتح الباری:2/718)
اور عبداللہ بن مسعود ؓ نے تمیم بن حذلم سے کہا کہ وہ لڑکا تھا اس نے سجدے کی آیت پڑھی سجدہ کر۔ کیونکہ تو اس سجدے میں ہمارا امام ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ہمارے سامنے جب وہ سورت تلاوت کرتے جس میں سجدہ ہوتا تو آپ خود بھی سجدہ کرتے اور ہم بھی سجدہ کرتے تھے یہاں تک کہ بھیڑ کی وجہ سے بعض لوگوں کو پیشانی رکھنے کی بھی جگہ نہیں ملتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ممکن ہے امام بخاری ؒ کا رجحان اس طرف ہو کہ جب قاری سجدہ کرے تو سامع کو سجدہ کرنا چاہیے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے اثر سے معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ ایک لڑکے نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیت سجدہ تلاوت کی، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرنے لگا کہ آپ کب سجدہ کرتے ہیں، جب آپ نے سجدہ نہ کیا تو عرض کرنے لگا: اس آیت میں سجدہ ضروری نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں لیکن تو اس سلسلے میں امام ہے، اگر تو سجدہ کرتا ہے تو ہم بھی کرتے۔ اسے ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے۔ اس کے سب راوی ثقہ ہیں لیکن یہ روایت مرسل ہے۔ (2) اس سلسلے میں جمہور کا موقف یہ ہے کہ سننے والے کو ہر حالت میں سجدہ کرنا چاہیے، خواہ پڑھنے والا سجدہ کرے یا نہ کرے۔ وہ بے وضو ہو یا نابالغ یا عورت ہو، بہرحال آیت سجدہ سننے والے کو چاہیے کہ وہ سجدہ کرے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: اس مسئلے میں مختلف مذاہب ہیں: بعض حضرات کے نزدیک سننے والے پر سجدۂ تلاوت واجب ہے، خواہ پڑھنے والا کرے یا نہ کرے، خواہ سننے والے کے کان میں اتفاقاً آیت سجدہ کی آواز پڑ جائے یا قصداً اسے سماعت کرے، لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ جب تلاوت کرنے والا آیت سجدہ پڑھے تو سننے والا اس وقت سجدہ کرنے کا پابند ہو گا جب وہ سننے کا ارادہ کرے۔ اتفاقاً کان میں آواز پڑ جانے سے سجدہ ضروری نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے ایک لڑکے تمیم بن حذلم سے، جب اس نے آیت سجدہ تلاوت کی، فرمایا: سجدہ کرو کیونکہ تم اس کے متعلق ہمارے امام ہو۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیی بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا کہا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا ان سے ابن عمر ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ ہماری موجودگی میں آیت سجدہ پڑھتے اور سجدہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ ( ہجوم کی وجہ سے ) اس طرح سجدہ کرتے کہ پیشانی رکھنے کی جگہ بھی نہ ملتی جس پر سجدہ کرتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): When the Prophet (ﷺ) recited a Sura that contained the prostration he would prostrate and we would do the same and some of us (because of the heavy rush) could not find a place for prostration.