باب: امام جب سجدہ کی آیت پڑھے اور لوگ ہجوم کریں تو بہرحال سجدہ کرنا چاہیے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prostration During Recital of Qur'an
(Chapter: The overcrowding of the people when the Imam recites As-Sajda)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1076.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ آیت سجدہ تلاوت فرماتے اور ہم آپ کے پاس ہوتے، آپ سجدہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے۔ اس وقت اتنا رش ہو جاتا کہ ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ پاتا کہ وہاں سجدہ کر سکے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں حتمی طور پر کوئی حکم واضح نہیں کیا۔ شاید آپ کا مقصود یہ ہے کہ سجدۂ تلاوت حتمی ہے جسے کسی عذر کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد اس سے ملتا جلتا ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب من لم يجد موضعا للسجود من الزحام)’’جو شخص بوجۂ ہجوم سجدۂ تلاوت کے لیے جگہ نہ پائے۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ باب میں ایسے حالات میں سجدے کا حکم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا شخص کیا کرے؟ آیا وہ کسی دوسرے وقت تک سجدے کو مؤخر کر دے یا دوسرے کی پیٹھ ہی پر سجدہ کر دے یا ایسے حالات میں سجدہ ساقط ہو جائے گا؟ ان مذکورہ بالا تینوں احتمالات میں سے کسی کو متعین نہیں کیا بلکہ اسے مبہم رکھا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کے عنوان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں بقدر استطاعت سجدہ کرے اگرچہ دوسرے کی پشت ہی پر کیوں نہ ہو۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1058
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1076
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1076
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1076
تمہید کتاب
سجدۂ تلاوت کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اس کا کلام سن کر سجدے میں گر جاتے ہیں اور ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو کلام الٰہی سن کر سجدہ ریز نہیں ہوتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴿١٠٧﴾) "اس قرآن سے پہلے جنہیں علم دیا گیا ہے جب انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (بنی اسرائیل107:17)ایک دوسرے مقام پر فرمایا: (إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩ ﴿٥٨﴾) "برگزیدہ لوگوں پر جب اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (مریم58:19)دوسرے لوگوں پر بایں الفاظ عتاب فرمایا: (فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٠﴾ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ ۩ ﴿٢١﴾) "پھر ان (کفار) کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔" (الانشقاق84: 20،21)سجدۂ تلاوت بجا لانے سے شیطان روتا پیٹتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب ابن آدم کسی سجدے والی آیت کو تلاوت کرتا اور پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: ہائے میری ہلاکت، کہ ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کر لیا، لہذا اس کے لیے جنت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کر دیا، لہذا میرے لیے جہنم ہے۔ (صحیح مسلم،الایمان،حدیث:244(81))سجدۂ تلاوت کی حیثیت کیا ہے؟ ان کی تعداد کتنی ہے؟ نماز میں یا نماز کے علاوہ سجدہ تلاوت مشروع ہے؟ سجدۂ تلاوت کی شرائط کیا ہیں؟ اس میں کون سی دعا پڑھنی ہے؟ ایک مجلس میں بار بار آیت سجدہ تلاوت کی جائے تو کیا حکم ہے؟ سجدۂ تلاوت کا کیا طریقہ ہے؟ کیا اس کے بعد سلام پھیرنا ہے؟ نیز کیا آیت سجدہ سننے پر سجدہ کرنا مشروع ہے؟ اور اس طرح کے دیگر مسائل کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً پندرہ (15) احادیث پیش کی ہیں اور ان پر بارہ (12) عنوان قائم کر کے سجدۂ تلاوت سے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اسنادی حقائق و رموز بھی ذکر کیے ہیں جنہیں ہم ان شاءاللہ تفصیل سے بیان کریں گے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کے تحت پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں جن میں دو (2) معلق اور نو (9) مکرر ہیں۔ خالص احادیث کی تعداد چھ (6) ہے۔ امام مسلم نے دو (2) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں عملی تبدیلی لانے کے لیے صحیح بخاری کا مطالعہ کریں۔ اسے پڑھتے وقت ہماری معروضات کو بھی مدنظر رکھیں، اس طرح جہاں ہمارے قلوب و اذہان میں کشادگی پیدا ہو گی وہاں امام بخاری رحمہ اللہ سے تعلق خاطر کے لیے بھی راستہ ہموار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کا حق دار بنائے اور زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ آمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ آیت سجدہ تلاوت فرماتے اور ہم آپ کے پاس ہوتے، آپ سجدہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے۔ اس وقت اتنا رش ہو جاتا کہ ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ پاتا کہ وہاں سجدہ کر سکے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں حتمی طور پر کوئی حکم واضح نہیں کیا۔ شاید آپ کا مقصود یہ ہے کہ سجدۂ تلاوت حتمی ہے جسے کسی عذر کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد اس سے ملتا جلتا ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب من لم يجد موضعا للسجود من الزحام)’’جو شخص بوجۂ ہجوم سجدۂ تلاوت کے لیے جگہ نہ پائے۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ باب میں ایسے حالات میں سجدے کا حکم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا شخص کیا کرے؟ آیا وہ کسی دوسرے وقت تک سجدے کو مؤخر کر دے یا دوسرے کی پیٹھ ہی پر سجدہ کر دے یا ایسے حالات میں سجدہ ساقط ہو جائے گا؟ ان مذکورہ بالا تینوں احتمالات میں سے کسی کو متعین نہیں کیا بلکہ اسے مبہم رکھا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کے عنوان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں بقدر استطاعت سجدہ کرے اگرچہ دوسرے کی پشت ہی پر کیوں نہ ہو۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشر بن آدم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبید اللہ عمری نے خبر دی، انہیں نافع نے اور نافع کو ابن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ آیت سجدہ کی تلاوت اگر ہماری موجودگی میں کرتے تو آپ کے ساتھ ہم بھی سجدہ کرتے تھے۔ اس وقت اتنا اژدھام ہو جاتا کہ سجدہ کے لیے پیشانی رکھنے کی جگہ نہ ملتی جس پر سجدہ کرنے والا سجدہ کر سکے۔
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث سے بعضوں نے یہ نکالاکہ جب پڑھنے والا سجدہ کرے تو سننے والا بھی کرے گویا اس سجدے میں سننے والا مقتدی ہے اور پڑھنے والا امام ہے۔ بیہقی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا جب لوگوں کا بہت ہجوم ہوتو تم میں کوئی اپنے بھائی کی پشت پر بھی سجدہ کر سکتا ہے۔ قسطلانی نے کہا جب ہجوم کی حالت میں فرض نماز میں پیٹھ پر سجدہ کرنا جائز ہوا تو تلاوت قرآن پاک کا سجدہ ایسی حالت میں بطریق اولی جائز ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar, When the Prophet (ﷺ) recited Surat As-Sajda and we were with him, he would prostrate and we also would prostrate with him and some of us (because of the heavy rush) would not find a place (for our foreheads) to prostrate on.