باب: اس شخص کی دلیل جس کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت کو واجب نہیں کیا۔
)
Sahi-Bukhari:
Prostration During Recital of Qur'an
(Chapter: Whoever thinks that Allah has not made prostration of recitation compulsory)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عمران بن حصین صحابی سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو آیت سجدہ سنتا ہے مگر وہ سننے کی نیت سے نہیں بیٹھا تھا تو کیا اس پر سجدہ واجب ہے۔ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا اگر وہ اس نیت سے بیٹھا بھی ہو تو کیا (گویا انہوں نے سجدہ تلاوت کو واجب نہیں سمجھا) سلمان فارسی نے فرمایا کہ ہم سجدہ تلاوت کے لیے نہیں آئے۔ عثمانؓ نے فرمایا کہ سجدہ ان کے لیے ضروری ہے جنہوں نے آیت سجدہ قصد سے سنی ہو۔ زہری نے فرمایا کہ سجدہ کے لیے طہارت ضروری ہے اگر کوئی سفر کی حالت میں نہ ہو بلکہ گھر پر ہو تو سجدہ قبلہ رو ہو کر کیا جائے گا اور سواری پر قبلہ رو ہونا ضروری نہیں جدھر بھی رخ ہو (اسی طرف سجدہ کر لینا چاہیے) سائب بن یزید واعظوں و قصہ خوانوں کے سجدہ کرنے پر سجدہ نہ کرتے۔
1077.
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے جمعہ کے دن منبر پر سورہ نحل تلاوت فرمائی۔ جب آیت سجدہ پر پہنچے تو منبر سے نیچے اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے ہمراہ سجدہ تلاوت کیا۔ جب آئندہ جمعہ آیا تو آپ نے منبر پر پھر اسی سورت کی تلاوت فرمائی۔ جب آیت سجدہ پر پہنچے تو فرمایا: لوگو! ہم آیت سجدہ پڑھ رہے ہیں، جس نے اس پر سجدہ کیا اس نے ٹھیک اور درست کام کیا اور جس نے سجدہ نہ کیا اس پر کوئی گناہ نہیں، تاہم حضرت عمر ؓ نے سجدہ نہ کیا۔ حضرت نافع نے ابن عمر ؓ کے واسطے سے حضرت عمر ؓ سے ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت ہم پر فرض نہیں کیا ہے، ہاں! اگر ہم چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
تشریح:
(1) حضرت عمر ؓ نے سجدۂ تلاوت کے متعلق اپنے موقف کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں بیان کیا، اس کے متعلق کسی صحابی نے اختلاف نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدۂ تلاوت کے واجب نہ ہونے پر جملہ صحابہ کا اجماع سکوتی ہے۔ پھر حضرت ابن عمر ؓ نے جو الفاظ نقل کیے ہیں ان میں تو کسی تاویل کی گنجائش نہیں، جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہے کہ سجدۂ تلاوت کی ادائیگی فورا واجب نہیں۔ حضرت عمر ؓ نے واضح طور پر فرمایا کہ جو آیت سجدہ پر سجدہ نہیں کرتا اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ایسا موقف کسی نفل کی ادائیگی پر ہی اختیار کیا جا سکتا ہے، واجب کی ادائیگی کے متعلق ایسا نہیں کہا جاتا۔ واللہ أعلم۔ سجدۂ تلاوت کے واجب نہ ہونے پر حضرت ابن عباسؓ سے مروی وہ حدیث دلیل ہے جو پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس سورۂ نجم تلاوت فرمائی، لیکن آپ نے اس میں سجدہ نہ کیا اور نہ رسول اللہ ﷺ ہی نے انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ (حدیث: 1072) اگر سجدۂ تلاوت واجب ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت زید بن ثابت ؓ کو ضرور اسے ادا کرنے کا حکم دیتے۔ ہمارے نزدیک سجدۂ تلاوت سنت مؤکدہ ہے، واجب نہیں، لیکن اس کا ادا کرنا افضل اور بہتر ہے، کیونکہ ایک تو سنت ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی وجہ سے شیطان بھی روتا پیٹتا ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) واضح رہے کہ قرآن مجید میں پندرہ سجود تلاوت ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ سورۃ الاعراف: 208 ٭ سورۃ الرعد: 15 ٭ سورۃ النحل: 50 ٭ سورۃ الاسراء: 109 ٭ سورۂ مریم: 58 ٭ سورۃ الحج: 18 ٭ سورۃ الحج: 77 ٭ سورۃ الفرقان: 50 ٭ سورۃ النمل: 28 ٭ سورۂ تنزیل السجدہ: 15 ٭ سورۂ ص: 24 ٭ سورۂ حم السجدۃ: 38 ٭ سورۃ النجم: 62 ٭ سورۃ الانشقاق: 21 ٭ سورۃ العلق: 19۔ (3) سورۃ الحج کے دوسرے سجدے کی بابت اختلاف ہے۔ احناف اسے تسلیم نہیں کرتے، لیکن بیشتر علمائے امت کا موقف ہے کہ سجدہ ہائے تلاوت کی تعداد پندرہ ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1059
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1077
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1077
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1077
تمہید کتاب
سجدۂ تلاوت کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اس کا کلام سن کر سجدے میں گر جاتے ہیں اور ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو کلام الٰہی سن کر سجدہ ریز نہیں ہوتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴿١٠٧﴾) "اس قرآن سے پہلے جنہیں علم دیا گیا ہے جب انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (بنی اسرائیل107:17)ایک دوسرے مقام پر فرمایا: (إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩ ﴿٥٨﴾) "برگزیدہ لوگوں پر جب اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (مریم58:19)دوسرے لوگوں پر بایں الفاظ عتاب فرمایا: (فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٠﴾ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ ۩ ﴿٢١﴾) "پھر ان (کفار) کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔" (الانشقاق84: 20،21)سجدۂ تلاوت بجا لانے سے شیطان روتا پیٹتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب ابن آدم کسی سجدے والی آیت کو تلاوت کرتا اور پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: ہائے میری ہلاکت، کہ ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کر لیا، لہذا اس کے لیے جنت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کر دیا، لہذا میرے لیے جہنم ہے۔ (صحیح مسلم،الایمان،حدیث:244(81))سجدۂ تلاوت کی حیثیت کیا ہے؟ ان کی تعداد کتنی ہے؟ نماز میں یا نماز کے علاوہ سجدہ تلاوت مشروع ہے؟ سجدۂ تلاوت کی شرائط کیا ہیں؟ اس میں کون سی دعا پڑھنی ہے؟ ایک مجلس میں بار بار آیت سجدہ تلاوت کی جائے تو کیا حکم ہے؟ سجدۂ تلاوت کا کیا طریقہ ہے؟ کیا اس کے بعد سلام پھیرنا ہے؟ نیز کیا آیت سجدہ سننے پر سجدہ کرنا مشروع ہے؟ اور اس طرح کے دیگر مسائل کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً پندرہ (15) احادیث پیش کی ہیں اور ان پر بارہ (12) عنوان قائم کر کے سجدۂ تلاوت سے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اسنادی حقائق و رموز بھی ذکر کیے ہیں جنہیں ہم ان شاءاللہ تفصیل سے بیان کریں گے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کے تحت پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں جن میں دو (2) معلق اور نو (9) مکرر ہیں۔ خالص احادیث کی تعداد چھ (6) ہے۔ امام مسلم نے دو (2) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں عملی تبدیلی لانے کے لیے صحیح بخاری کا مطالعہ کریں۔ اسے پڑھتے وقت ہماری معروضات کو بھی مدنظر رکھیں، اس طرح جہاں ہمارے قلوب و اذہان میں کشادگی پیدا ہو گی وہاں امام بخاری رحمہ اللہ سے تعلق خاطر کے لیے بھی راستہ ہموار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کا حق دار بنائے اور زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
قرآن کریم کی جن آیات میں سجدۂ تلاوت کیا جاتا ہے وہ دو اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ جن میں سجدے کی خبر دی گئی ہے، مثلاً: سورۂ اعراف کے آخر میں ہے کہ فرشتے اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ٭ جن میں سجدہ کرنے کا حکم وارد ہے، مثلاً: سورۂ نجم میں ہے کہ اللہ کے لیے سجدو کرو اور اس کی عبادت میں مصروف رہو۔ جن آیات میں سجدہ کرنے کا حکم ہے ان کے متعلق علمائے امت کا اختلاف ہے کہ یہ امر وجوب کے لیے ہے یا استحباب کے معنی دیتا ہے، یا اس سے مراد سجود نماز ہیں، یا سجود نماز کے متعلق امر وجوب ہے اور سجود تلاوت کے متعلق امر استحباب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ آثار میں ان دلائل کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن میں سجدۂ تلاوت کے مسنون ہونے کا پتہ چلتا ہے، نیز ان سے امام بخاری رحمہ اللہ کے رجحان کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کے وجوب کے قائل نہیں، چنانچہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ (2/384) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے، نیز مصنف عبدالرزاق (8/345) میں ہے کہ وہ ایک قصہ گو واعظ کے پاس سے گزرے۔ اس نے دوران وعظ میں آیت سجدہ تلاوت کی تو آپ نے سجدہ نہ کیا۔ ان دونوں آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک سجدۂ تلاوت واجب نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ضرور سجدہ کرتے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام عبدالرزاق نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ وہ ایک قوم کے پاس سے گزرے، انہوں نے آیت سجدہ پڑھی اور سجدہ کیا لیکن حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہ کیا اور فرمایا کہ ہم اس لیے نہیں آئے، یعنی ہم نے اس آیت کو سننے کا ارادہ نہیں کیا بلکہ اتفاقاً یہ آیت ہمارے کانوں میں پڑ گئی ہے، لہذا ایسے حالات میں ہمارے ذمے سجدہ نہیں ہے۔ (المصنف لعبدالرزاق:8/345) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اثر کو بھی عبدالرزاق نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے کہ وہ ایک قصہ گو واعظ کے پاس سے گزرے تو اس نے آیت سجدہ تلاوت کی تاکہ آپ بھی ان کے ساتھ سجدہ کریں لیکن آپ نے فرمایا کہ آیت سجدہ بغور اور کان لگا کر سننے پر سجدہ کرنا ہوتا ہے، میرے کان میں تو اتفاقاً پڑ گئی۔ آپ وہاں سے گزر گئے اور سجدہ نہ کیا۔ امام زہری کے اثر کو عبداللہ بن وہب نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک سجدۂ تلاوت واجب نہیں کیونکہ واجب کو سواری کی حالت میں ادا نہیں کیا جاتا، نیز واجب کی ادائیگی کے لیے استقبال قبلہ ضروری ہے۔ سواری پر استقبال قبلہ کے بغیر نفل ادا کیے جا سکتے ہیں۔ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا اثر متصل سند سے نہیں مل سکا۔ ان تمام آثار کی عنوان سے مطابقت واضح ہے کہ سجدۂ تلاوت واجب نہیں۔ (فتح الباری:2/720)
اور عمران بن حصین صحابی سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو آیت سجدہ سنتا ہے مگر وہ سننے کی نیت سے نہیں بیٹھا تھا تو کیا اس پر سجدہ واجب ہے۔ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا اگر وہ اس نیت سے بیٹھا بھی ہو تو کیا (گویا انہوں نے سجدہ تلاوت کو واجب نہیں سمجھا) سلمان فارسی نے فرمایا کہ ہم سجدہ تلاوت کے لیے نہیں آئے۔ عثمانؓ نے فرمایا کہ سجدہ ان کے لیے ضروری ہے جنہوں نے آیت سجدہ قصد سے سنی ہو۔ زہری نے فرمایا کہ سجدہ کے لیے طہارت ضروری ہے اگر کوئی سفر کی حالت میں نہ ہو بلکہ گھر پر ہو تو سجدہ قبلہ رو ہو کر کیا جائے گا اور سواری پر قبلہ رو ہونا ضروری نہیں جدھر بھی رخ ہو (اسی طرف سجدہ کر لینا چاہیے) سائب بن یزید واعظوں و قصہ خوانوں کے سجدہ کرنے پر سجدہ نہ کرتے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے جمعہ کے دن منبر پر سورہ نحل تلاوت فرمائی۔ جب آیت سجدہ پر پہنچے تو منبر سے نیچے اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے ہمراہ سجدہ تلاوت کیا۔ جب آئندہ جمعہ آیا تو آپ نے منبر پر پھر اسی سورت کی تلاوت فرمائی۔ جب آیت سجدہ پر پہنچے تو فرمایا: لوگو! ہم آیت سجدہ پڑھ رہے ہیں، جس نے اس پر سجدہ کیا اس نے ٹھیک اور درست کام کیا اور جس نے سجدہ نہ کیا اس پر کوئی گناہ نہیں، تاہم حضرت عمر ؓ نے سجدہ نہ کیا۔ حضرت نافع نے ابن عمر ؓ کے واسطے سے حضرت عمر ؓ سے ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت ہم پر فرض نہیں کیا ہے، ہاں! اگر ہم چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عمر ؓ نے سجدۂ تلاوت کے متعلق اپنے موقف کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں بیان کیا، اس کے متعلق کسی صحابی نے اختلاف نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدۂ تلاوت کے واجب نہ ہونے پر جملہ صحابہ کا اجماع سکوتی ہے۔ پھر حضرت ابن عمر ؓ نے جو الفاظ نقل کیے ہیں ان میں تو کسی تاویل کی گنجائش نہیں، جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہے کہ سجدۂ تلاوت کی ادائیگی فورا واجب نہیں۔ حضرت عمر ؓ نے واضح طور پر فرمایا کہ جو آیت سجدہ پر سجدہ نہیں کرتا اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ایسا موقف کسی نفل کی ادائیگی پر ہی اختیار کیا جا سکتا ہے، واجب کی ادائیگی کے متعلق ایسا نہیں کہا جاتا۔ واللہ أعلم۔ سجدۂ تلاوت کے واجب نہ ہونے پر حضرت ابن عباسؓ سے مروی وہ حدیث دلیل ہے جو پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس سورۂ نجم تلاوت فرمائی، لیکن آپ نے اس میں سجدہ نہ کیا اور نہ رسول اللہ ﷺ ہی نے انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ (حدیث: 1072) اگر سجدۂ تلاوت واجب ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت زید بن ثابت ؓ کو ضرور اسے ادا کرنے کا حکم دیتے۔ ہمارے نزدیک سجدۂ تلاوت سنت مؤکدہ ہے، واجب نہیں، لیکن اس کا ادا کرنا افضل اور بہتر ہے، کیونکہ ایک تو سنت ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی وجہ سے شیطان بھی روتا پیٹتا ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) واضح رہے کہ قرآن مجید میں پندرہ سجود تلاوت ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ سورۃ الاعراف: 208 ٭ سورۃ الرعد: 15 ٭ سورۃ النحل: 50 ٭ سورۃ الاسراء: 109 ٭ سورۂ مریم: 58 ٭ سورۃ الحج: 18 ٭ سورۃ الحج: 77 ٭ سورۃ الفرقان: 50 ٭ سورۃ النمل: 28 ٭ سورۂ تنزیل السجدہ: 15 ٭ سورۂ ص: 24 ٭ سورۂ حم السجدۃ: 38 ٭ سورۃ النجم: 62 ٭ سورۃ الانشقاق: 21 ٭ سورۃ العلق: 19۔ (3) سورۃ الحج کے دوسرے سجدے کی بابت اختلاف ہے۔ احناف اسے تسلیم نہیں کرتے، لیکن بیشتر علمائے امت کا موقف ہے کہ سجدہ ہائے تلاوت کی تعداد پندرہ ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عمران بن حصینؓ سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص آیت سجدہ سنتا ہے لیکن وہ سننے کی نیت سے نہیں بیٹھا؟ انہوں نے فرمایا: اگر وہ سننے کی نیت سے بیٹھ بھی جائے تو کیا ہے؟ گویا وہ اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں کرتے۔حضرت سلمان فارسی ؓ نے فرمایا: ہم سجدہ تلاوت کے لیے نہیں آئے۔حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: سجدہ تلاوت اس شخص پر ہے جو آیت سجدہ کو قصدا غور سے سنتا ہے۔امام زہری بیان کرتے ہیں کہ سجدے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے۔ اگر بحالت اقامت سجدہ کرو تو قبلہ رو ہو کر کرو، اگر تم سوار ہو تو پھر جدھر تمہارا رخ ہو اس میں تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔حضرت سائب بن یزید ؓ قصہ گو واعظ کے سجدہ کرنے پر سجدہ نہیں کرتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی اور انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن ابی ملیکہ نے خبر دی، انہیں عثمان بن عبد الرحمن تیمی نے اور انہیں ربیعہ بن عبد اللہ بن ہدیر تیمی نے کہا۔۔۔ ابوبکر بن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ربیعہ بہت اچھے لوگوں میں سے تھے ربیعہ نے وہ حال بیان کیا جو حضرت عمر بن خطاب ؓ کی مجلس میں انہوں نے دیکھا۔ حضرت عمر ؓ نے جمعہ کے دن منبر پر سورہ نحل پڑھی جب سجدہ کی آیت ﴿وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ﴾ آخر تک پہنچے تو منبر پر سے اترے اور سجدہ کیا تو لوگوں نے بھی ان کے ساتھ سجدہ کیا۔ دوسرے جمعہ کو پھر یہی سورت پڑھی جب سجدہ کی آیت پر پہنچے تو کہنے لگے لوگو! ہم سجدہ کی آیت پڑھتے چلے جاتے ہیں پھر جو کوئی سجدہ کرے اس نے اچھا کیا اور جو کوئی نہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں اور حضرت عمر ؓ نے سجدہ نہیں کیا اور نافع نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے نقل کیا کہ اللہ تعالی نے سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا ہماری خوشی پر رکھا۔
حدیث حاشیہ:
علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: وأقوی الأدلة علی نفي الوجوب حدیث عمر المذکور في ھذا الباب۔ یعنی اس بات کی قوی دلیل کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں یہ حضرت عمر ؓ کی حدیث ہے جو یہاں اس باب میں مذکور ہوئی۔ اکثر ائمہ وفقہاء اسی کے قائل ہیں کہ سجدہ تلاوت ضروری نہیں، بلکہ صرف سنت ہے۔ امام بخاری ؒ کا بھی یہی مسلک ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rabi'a (RA): 'Umar bin Al-Khattab (RA) recited Surat-an-Nahl on a Friday on the pulpit and when he reached the verse of Sajda he got down from the pulpit and prostrated and the people also prostrated. The next Friday 'Umar bin Al-Khattab (RA) recited the same Sura and when he reached the verse of Sajda he said, "O people! When we recite the verses of Sajda (during the sermon) whoever prostrates does the right thing, yet it is no sin for the one who does not prostrate." And 'Umar did not prostrate (that day). Added Ibn 'Umar (RA) "Allah has not made the prostration of recitation compulsory but if we wish we can do it."