باب: نماز میں قصر کرنے کا بیان اور اقامت کی حالت میں کتنی مدت تک قصر کر سکتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: For what period of stay one should offer shortened prayers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1080.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے انیس دن پڑاؤ کیا، اس دوران آپ قصر کرتے رہے، لہٰذا ہم بھی دورانِ سفر انیس روز پڑاؤ کریں تو قصر کریں گے اور اگر زیادہ عرصہ اقامت کریں تو پوری پڑھیں گے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ یہ مکہ مکرمہ کا سفر تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4298) ابوداود میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سترہ دن پڑاؤ کیا تھا۔ ایک روایت میں اٹھارہ راتوں کا ذکر ہے، جبکہ ایک دوسری میں پندرہ دن بیان ہوئے ہیں۔ ان مختلف روایات کے درمیان امام بیہقی ؒ نے بایں الفاظ تطبیق دی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے اور یہاں سے نکلنے کے دن کو شامل کر کے انیس دن کہا گیا ہے اور آنے جانے کے دن نکال کر سترہ دن رہ جاتے ہیں۔ اٹھارہ دنوں کے مطابق صرف آنے یا صرف جانے کے دن کو اس مدت میں شامل کیا گیا ہے، البتہ پندرہ دن کی اقامت کو امام نووی ؒ نے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس کے راوی ثقہ ہیں، لہذا اسے ضعیف قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ ممکن ہے راوی نے سترہ دنوں والی روایت کو اصل قرار دے کر اس سے آمد اور روانگی کے دن کو خارج کر دیا ہو۔ بہرحال انیس دن کی روایت راجح ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:725/2) (2) رسول اللہ ﷺ کے سفر چار نوعیت کے ہیں: ٭ سفر ہجرت۔ ٭ سفر جہاد۔ ٭ سفر عمرہ۔ ٭ سفر حج۔ آپ کے اکثر و بیشتر سفر جہاد کے متعلق ہیں۔ اس قسم کے سفر میں جنگی حالات کی بنا پر کسی جگہ بھی عزم کے ساتھ پڑاؤ نہیں ہوتا تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر اگر چھ ماہ یا سال بھی کسی جگہ پڑاؤ کرنا پڑے تو بھی قصر کی اجازت ہے، جیسا کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے مقام تبوک پر بیس دن پڑاؤ کیا تھا اور وہاں قصر ہی کرتے رہے تھے۔ (مسند أحمد:295/3) لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے فتح مکہ کے دوران ہنگامی طور پر انیس دن کے پڑاؤ سے یہ استنباط کیا ہے کہ ہم اگر کسی مقام پر دوران سفر انیس روز ٹھہریں تو قصر کریں گے بصورت دیگر پوری نماز پڑھیں گے۔ ہمارے نزدیک ایسے ہنگامی حالات میں نماز قصر کے لیے اقامت کی کوئی حد نہیں۔ ایسے حالات میں جتنے دن بھی قیام ہو نماز قصر ہی پڑھنی ہو گی، جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے۔ (3) حضرت انس ؓ نے شام کے علاقے میں دو سال تک پڑاؤ کیا، اس دوران آپ نماز قصر پڑھتے رہے۔ (المصنف لعبد الرزاق، حدیث:4354) (4) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: "را مهرمز" میں صحابۂ کرام ؓ نے سات ماہ تک پڑاؤ کیا، اس دوران وہ نماز قصر پڑھتے رہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:152/3) (5) حضرت نافع کہتے ہیں: برف باری کی بنا پر حضرت ابن عمر ؓ نے آذربائیجان میں چھ ماہ تک پڑاؤ کیا، اس دوران آپ قصر پڑھتے رہے۔ (المصنف لعبدالرزاق، حدیث:4339) (6) عبدالرحمٰن بن مسور کہتے ہیں: ہم نے ملک شام کی کسی بستی میں حضرت سعد ؓ کے ہمراہ چالیس رات تک پڑاؤ کیا۔ اس دوران ہم تو پوری نماز پڑھتے تھے، البتہ حضرت سعد ؓ نماز قصر ادا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی فتح مکہ کے وقت مکہ مکرمہ میں انیس دن کی اقامت بھی ایسے ہنگامی حالات کے پیش نظر تھی، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دوران انیس دن ٹھہرنے کی پہلے ہی دن نیت نہیں کی تھی بلکہ آپ روانگی کے متعلق متردد تھے کہ کب مطلوبہ کام سے فارغ ہوں تو کوچ کریں۔ (فتح الباري:726/2) فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں سترہ رمضان بروز منگل علی الصبح داخل ہوئے اور چھ شوال بروز ہفتہ حنین کی طرف کوچ فرمایا۔ اس اقامت سے قصر نماز کی مدت کا تعین کرنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ سفر ہنگامی حالات کے پیش نظر تھا۔ محارب کو ہر لمحہ ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں کہ اسے آگے بڑھنا ہے یا پیچھے ہٹنا ہے۔ یہ صورت حال بذات خود رسول اللہ ﷺ کو بھی درپیش تھی۔ فتح مکہ کے فوراً بعد آپ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کی سربراہی میں ایک چھوٹا سا دستہ عزی (بت کا نام) کے انہدام کے لیے روانہ فرمایا، پھر عمرو بن عاص ؓ کی قیادت میں ایک دوسرا سریہ (چھوٹا لشکر) سواع بت کو گرانے کے لیے بھیجنا پڑا۔ اسی طرح سعد بن زید ؓ کے زیر امارت تیسرا دستہ مناۃ بت کو ختم کرنے کے لیے بھیجا۔ اس کے بعد آپ کو اطلاع ملی کہ ثقیف اور ہوازن مقابلے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں تو آپ نے خود آگے بڑھ کر وادئ حنین میں ان کا مقابلہ کیا۔ غزوۂ حنین اسی مقام پر ہوا تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مجاہد اگر فتح کے بعد بھی کسی مقام پر اقامت کا ارادہ کرے تو اس کے ارادے کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اس کی کیفیت اس مسافر کی ہے جو اس تذبذب میں مبتلا ہو کہ آج واپسی ہو گی یا کل چلیں گے، ایسے حالات میں وہ مسافر نماز قصر ہی ادا کرتا رہے گا، خواہ اس کا پڑاؤ سالوں اور مہینوں پر محیط ہو، جیسا کہ درج بالا واقعات سے ظاہر ہے، لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فتح مکہ اور غزوۂ تبوک کے موقع پر نماز قصر پڑھنا اس کی مدت کے تعین کی دلیل نہیں بن سکتا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1062
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1080
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1080
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1080
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے انیس دن پڑاؤ کیا، اس دوران آپ قصر کرتے رہے، لہٰذا ہم بھی دورانِ سفر انیس روز پڑاؤ کریں تو قصر کریں گے اور اگر زیادہ عرصہ اقامت کریں تو پوری پڑھیں گے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ یہ مکہ مکرمہ کا سفر تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4298) ابوداود میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سترہ دن پڑاؤ کیا تھا۔ ایک روایت میں اٹھارہ راتوں کا ذکر ہے، جبکہ ایک دوسری میں پندرہ دن بیان ہوئے ہیں۔ ان مختلف روایات کے درمیان امام بیہقی ؒ نے بایں الفاظ تطبیق دی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے اور یہاں سے نکلنے کے دن کو شامل کر کے انیس دن کہا گیا ہے اور آنے جانے کے دن نکال کر سترہ دن رہ جاتے ہیں۔ اٹھارہ دنوں کے مطابق صرف آنے یا صرف جانے کے دن کو اس مدت میں شامل کیا گیا ہے، البتہ پندرہ دن کی اقامت کو امام نووی ؒ نے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس کے راوی ثقہ ہیں، لہذا اسے ضعیف قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ ممکن ہے راوی نے سترہ دنوں والی روایت کو اصل قرار دے کر اس سے آمد اور روانگی کے دن کو خارج کر دیا ہو۔ بہرحال انیس دن کی روایت راجح ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:725/2) (2) رسول اللہ ﷺ کے سفر چار نوعیت کے ہیں: ٭ سفر ہجرت۔ ٭ سفر جہاد۔ ٭ سفر عمرہ۔ ٭ سفر حج۔ آپ کے اکثر و بیشتر سفر جہاد کے متعلق ہیں۔ اس قسم کے سفر میں جنگی حالات کی بنا پر کسی جگہ بھی عزم کے ساتھ پڑاؤ نہیں ہوتا تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر اگر چھ ماہ یا سال بھی کسی جگہ پڑاؤ کرنا پڑے تو بھی قصر کی اجازت ہے، جیسا کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے مقام تبوک پر بیس دن پڑاؤ کیا تھا اور وہاں قصر ہی کرتے رہے تھے۔ (مسند أحمد:295/3) لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے فتح مکہ کے دوران ہنگامی طور پر انیس دن کے پڑاؤ سے یہ استنباط کیا ہے کہ ہم اگر کسی مقام پر دوران سفر انیس روز ٹھہریں تو قصر کریں گے بصورت دیگر پوری نماز پڑھیں گے۔ ہمارے نزدیک ایسے ہنگامی حالات میں نماز قصر کے لیے اقامت کی کوئی حد نہیں۔ ایسے حالات میں جتنے دن بھی قیام ہو نماز قصر ہی پڑھنی ہو گی، جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے۔ (3) حضرت انس ؓ نے شام کے علاقے میں دو سال تک پڑاؤ کیا، اس دوران آپ نماز قصر پڑھتے رہے۔ (المصنف لعبد الرزاق، حدیث:4354) (4) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: "را مهرمز" میں صحابۂ کرام ؓ نے سات ماہ تک پڑاؤ کیا، اس دوران وہ نماز قصر پڑھتے رہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:152/3) (5) حضرت نافع کہتے ہیں: برف باری کی بنا پر حضرت ابن عمر ؓ نے آذربائیجان میں چھ ماہ تک پڑاؤ کیا، اس دوران آپ قصر پڑھتے رہے۔ (المصنف لعبدالرزاق، حدیث:4339) (6) عبدالرحمٰن بن مسور کہتے ہیں: ہم نے ملک شام کی کسی بستی میں حضرت سعد ؓ کے ہمراہ چالیس رات تک پڑاؤ کیا۔ اس دوران ہم تو پوری نماز پڑھتے تھے، البتہ حضرت سعد ؓ نماز قصر ادا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی فتح مکہ کے وقت مکہ مکرمہ میں انیس دن کی اقامت بھی ایسے ہنگامی حالات کے پیش نظر تھی، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دوران انیس دن ٹھہرنے کی پہلے ہی دن نیت نہیں کی تھی بلکہ آپ روانگی کے متعلق متردد تھے کہ کب مطلوبہ کام سے فارغ ہوں تو کوچ کریں۔ (فتح الباري:726/2) فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں سترہ رمضان بروز منگل علی الصبح داخل ہوئے اور چھ شوال بروز ہفتہ حنین کی طرف کوچ فرمایا۔ اس اقامت سے قصر نماز کی مدت کا تعین کرنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ سفر ہنگامی حالات کے پیش نظر تھا۔ محارب کو ہر لمحہ ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں کہ اسے آگے بڑھنا ہے یا پیچھے ہٹنا ہے۔ یہ صورت حال بذات خود رسول اللہ ﷺ کو بھی درپیش تھی۔ فتح مکہ کے فوراً بعد آپ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کی سربراہی میں ایک چھوٹا سا دستہ عزی (بت کا نام) کے انہدام کے لیے روانہ فرمایا، پھر عمرو بن عاص ؓ کی قیادت میں ایک دوسرا سریہ (چھوٹا لشکر) سواع بت کو گرانے کے لیے بھیجنا پڑا۔ اسی طرح سعد بن زید ؓ کے زیر امارت تیسرا دستہ مناۃ بت کو ختم کرنے کے لیے بھیجا۔ اس کے بعد آپ کو اطلاع ملی کہ ثقیف اور ہوازن مقابلے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں تو آپ نے خود آگے بڑھ کر وادئ حنین میں ان کا مقابلہ کیا۔ غزوۂ حنین اسی مقام پر ہوا تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مجاہد اگر فتح کے بعد بھی کسی مقام پر اقامت کا ارادہ کرے تو اس کے ارادے کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اس کی کیفیت اس مسافر کی ہے جو اس تذبذب میں مبتلا ہو کہ آج واپسی ہو گی یا کل چلیں گے، ایسے حالات میں وہ مسافر نماز قصر ہی ادا کرتا رہے گا، خواہ اس کا پڑاؤ سالوں اور مہینوں پر محیط ہو، جیسا کہ درج بالا واقعات سے ظاہر ہے، لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فتح مکہ اور غزوۂ تبوک کے موقع پر نماز قصر پڑھنا اس کی مدت کے تعین کی دلیل نہیں بن سکتا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا، ان سے عاصم احول اور حصین سلمی نے، ان سے عکرمہ نے، اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ (مکہ میں فتح مکہ کے موقع پر) انیس دن ٹھہرے اور برابر قصر کرتے رہے۔ اس لیے انیس دن کے سفر میں ہم بھی قصر کرتے رہتے ہیں اور اس سے اگر زیادہ ہو جائے تو پوری نماز پڑھتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس ترجمہ میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ سفر میں چار رکعت نماز کوقصر کرے یعنی دورکعتیں پڑھے، دوسرے مسافر اگر کہیں ٹھہرنے کی نیت کر لے تو جتنے دن تک ٹھہرنے کی نیت کرے وہ قصر کر سکتا ہے۔ امام شافعی اور امام مالک ؒ کا مذہب یہ ہے کہ جب کہیں چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو پوری نماز پڑھے۔ حنفیہ کے نزدیک پندرہ سے کم میں قصر کرے۔ زیادہ کی نیت ہو تو پوری نمازپڑھے امام احمد اور داؤد کا مذہب یہ کہ چار دن سے زیادہ دن ٹھہرنے کا ارادہ ہوتو پوری نماز پڑھے۔ اسحاق بن راہویہ انیس دن سے کم قصر بتلاتے ہیں اور زیادہ کی صورت میں نماز پوری پڑھنے کا فتوی دیتے ہیں۔ حضرت امام بخاری ؒ کا بھی مذہب یہی معلوم ہوتا ہے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارک پورى ؒ نے امام احمد کے مسلک کو ترجیح دی ہے۔ (مرعاة، ج2ص:256)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) once stayed for nineteen days and prayed shortened prayers. So when we travel led (and stayed) for nineteen days, we used to shorten the prayer but if we travelled (and stayed) for a longer period we used to offer the full prayer.