باب: نماز میں قصر کرنے کا بیان اور اقامت کی حالت میں کتنی مدت تک قصر کر سکتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: For what period of stay one should offer shortened prayers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1081.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ نکل کر مدینہ سے مکہ تک کا سفر کیا، آپ اس سفر کے دوران میں مدینہ واپسی تک نماز دو دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں: میں نے حضرت انس ؓ سے دریافت کیا: آپ لوگ مکہ مکرمہ کچھ عرصہ ٹھہرے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، وہاں ہم نے دس دن قیام کیا تھا۔
تشریح:
(1) واضح رہے کہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا سفر بیان ہوا ہے کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ ہم چار ذوالحجہ کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے مکہ پہنچے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1085) رسول اللہ ﷺ چودہ ذوالحجہ کی صبح مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ گویا مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات میں آپ نے دس دن قیام فرمایا۔ اس سفر کی تفصیل اس طرح ہے کہ آپ چار ذوالحجہ صبح کے وقت مکہ مکرمہ آئے، پھر آٹھ ذوالحجہ کی نماز ظہر منیٰ میں ادا کی، اس طرح آپ نے مکہ مکرمہ میں تقریباً بیس نمازیں ادا کی ہیں، پہلے دن کی نماز فجر کے متعلق اختلاف ہے کہ آپ نے راستے میں ادا کی یا مکہ میں، البتہ بیس نمازوں کا مکہ مکرمہ میں ادا کرنا یقینی ہے۔ 4 ذوالحجہ: ظہر اور عصر۔ 6 ذوالحجہ: مغرب، عشاء، فجر، ظہر اور عصر۔ 7 ذوالحجہ: مغرب، عشاء، فجر، ظہر اور عصر۔ 8 ذوالحجہ: مغرب، عشاء اور فجر۔ یہ کل بیس نمازیں ہیں جو آپ نے مکہ مکرمہ میں ادا کی ہیں۔ آٹھویں ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ کر منیٰ روانہ ہوئے اور ظہر کی نماز وہاں مسجد خیف میں ادا فرمائی۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث انس اقامت کی نیت سے ٹھہرنے کی دلیل ہے، کیونکہ اس دوران میں آپ کو کوئی اندیشہ نہ تھا بلکہ آپ ان دنوں پختہ نیت سے ٹھہرے ہیں۔ (فتح الباري:726/2) مدت اقامت کے متعلق ہمارے نزدیک راجح مسلک یہ ہے کہ جو آدمی آمد اور روانگی کے دونوں دن چھوڑ کر صرف چار روز قیام کا ارادہ رکھتا ہو اسے پوری نماز پڑھنی ہو گی کیونکہ مکہ مکرمہ میں آپ کی مدت اقامت آمد اور روانگی کا دن نکال کر تین دن ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عمل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے اس مدت سے زیادہ قیام فرمایا ہو اور نماز قصر ادا کی ہو یا اس مدت سے کم قیام کیا ہو اور پوری نماز پڑھی ہو۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں آمد اور روانگی کا دن نکال کر پانچ چھ اور سات ذوالحجہ تک تین دن مکمل قیام فرمایا اور یہ قیام اتفاقی نہیں بلکہ حسب پروگرام تھا۔ اس دوران آپ نماز قصر پڑھتے رہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دوران سفر اگر کسی مقام پر بیس نمازیں ادا کرنے تک قیام رکھنا ہو تو نماز قصر کرنے کا ثبوت خود رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ملتا ہے۔ اس موقف کی تائید رسول اللہ ﷺ کے ایک اور فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے مہاجرین کو مناسک حج ادا کرنے کے بعد تین دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے کی اجازت دی تھی۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ حج ادا کرنے کے بعد مہاجر تین دن تک مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3298(1352)) اس فرمان نبوی کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے مکہ مکرمہ چھوڑا تھا، اس لیے فتح ہونے کے باوجود ان کی مسافرانہ حیثیت برقرار رہنی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق تین دن اور تین راتوں کے قیام سے ایک مسافر انسان مقیم کے حکم میں نہیں آتا بلکہ اس قدر قیام کرنے سے اس کی مسافرانہ حالت برقرار رہتی ہے۔ اس بنا پر محدثین کی اکثریت کا موقف ہے کہ آمد اور روانگی کے دن نکال کر اگر پورے تین دن اور تین راتیں قیام کا پختہ ارادہ ہو تو نماز قصر پڑھی جا سکتی ہے، اس سے زیادہ دن قیام کرنا ہو تو نماز پوری پڑھنی ہو گی۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1063
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1081
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1081
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1081
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ نکل کر مدینہ سے مکہ تک کا سفر کیا، آپ اس سفر کے دوران میں مدینہ واپسی تک نماز دو دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں: میں نے حضرت انس ؓ سے دریافت کیا: آپ لوگ مکہ مکرمہ کچھ عرصہ ٹھہرے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، وہاں ہم نے دس دن قیام کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) واضح رہے کہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا سفر بیان ہوا ہے کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ ہم چار ذوالحجہ کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے مکہ پہنچے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1085) رسول اللہ ﷺ چودہ ذوالحجہ کی صبح مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ گویا مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات میں آپ نے دس دن قیام فرمایا۔ اس سفر کی تفصیل اس طرح ہے کہ آپ چار ذوالحجہ صبح کے وقت مکہ مکرمہ آئے، پھر آٹھ ذوالحجہ کی نماز ظہر منیٰ میں ادا کی، اس طرح آپ نے مکہ مکرمہ میں تقریباً بیس نمازیں ادا کی ہیں، پہلے دن کی نماز فجر کے متعلق اختلاف ہے کہ آپ نے راستے میں ادا کی یا مکہ میں، البتہ بیس نمازوں کا مکہ مکرمہ میں ادا کرنا یقینی ہے۔ 4 ذوالحجہ: ظہر اور عصر۔ 6 ذوالحجہ: مغرب، عشاء، فجر، ظہر اور عصر۔ 7 ذوالحجہ: مغرب، عشاء، فجر، ظہر اور عصر۔ 8 ذوالحجہ: مغرب، عشاء اور فجر۔ یہ کل بیس نمازیں ہیں جو آپ نے مکہ مکرمہ میں ادا کی ہیں۔ آٹھویں ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ کر منیٰ روانہ ہوئے اور ظہر کی نماز وہاں مسجد خیف میں ادا فرمائی۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث انس اقامت کی نیت سے ٹھہرنے کی دلیل ہے، کیونکہ اس دوران میں آپ کو کوئی اندیشہ نہ تھا بلکہ آپ ان دنوں پختہ نیت سے ٹھہرے ہیں۔ (فتح الباري:726/2) مدت اقامت کے متعلق ہمارے نزدیک راجح مسلک یہ ہے کہ جو آدمی آمد اور روانگی کے دونوں دن چھوڑ کر صرف چار روز قیام کا ارادہ رکھتا ہو اسے پوری نماز پڑھنی ہو گی کیونکہ مکہ مکرمہ میں آپ کی مدت اقامت آمد اور روانگی کا دن نکال کر تین دن ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عمل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے اس مدت سے زیادہ قیام فرمایا ہو اور نماز قصر ادا کی ہو یا اس مدت سے کم قیام کیا ہو اور پوری نماز پڑھی ہو۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں آمد اور روانگی کا دن نکال کر پانچ چھ اور سات ذوالحجہ تک تین دن مکمل قیام فرمایا اور یہ قیام اتفاقی نہیں بلکہ حسب پروگرام تھا۔ اس دوران آپ نماز قصر پڑھتے رہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دوران سفر اگر کسی مقام پر بیس نمازیں ادا کرنے تک قیام رکھنا ہو تو نماز قصر کرنے کا ثبوت خود رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ملتا ہے۔ اس موقف کی تائید رسول اللہ ﷺ کے ایک اور فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے مہاجرین کو مناسک حج ادا کرنے کے بعد تین دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے کی اجازت دی تھی۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ حج ادا کرنے کے بعد مہاجر تین دن تک مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3298(1352)) اس فرمان نبوی کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے مکہ مکرمہ چھوڑا تھا، اس لیے فتح ہونے کے باوجود ان کی مسافرانہ حیثیت برقرار رہنی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق تین دن اور تین راتوں کے قیام سے ایک مسافر انسان مقیم کے حکم میں نہیں آتا بلکہ اس قدر قیام کرنے سے اس کی مسافرانہ حالت برقرار رہتی ہے۔ اس بنا پر محدثین کی اکثریت کا موقف ہے کہ آمد اور روانگی کے دن نکال کر اگر پورے تین دن اور تین راتیں قیام کا پختہ ارادہ ہو تو نماز قصر پڑھی جا سکتی ہے، اس سے زیادہ دن قیام کرنا ہو تو نماز پوری پڑھنی ہو گی۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا انہوں نے انس ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم مکہ کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے تو برابر نبی کریم ﷺ دو دو رکعت پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا مکہ میں کچھ دن قیام بھی رہا تھا؟ تو اس کا جواب انس ؓ نے یہ دیا کہ دس دن تک ہم وہاں ٹھہرے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Yahya bin Ishaq (RA): I heard Anas (RA) saying, "We travelled with the Prophet (ﷺ) from Madinah to Makkah and offered two Rakat (for every prayer) till we returned to Medina." I said, "Did you stay for a while in Makkah?" He replied, "We stayed in Makkah for ten days."