Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: As-Salat (the prayers) at Mina (during Hajj))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1082.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ منیٰ میں دو دو رکعتیں پڑھیں اور حضرت عثمان ؓ کے ساتھ بھی شروع خلافت میں دو ہی پڑھیں، اس کے بعد انہوں نے پوری نماز پڑھنا شروع کر دی۔
تشریح:
امام بخاری ؒ نے منیٰ میں نماز کے متعلق واضح حکم بیان نہیں کیا کہ ان دنوں قصر پڑھنی ہے یا پوری ادا کرنی ہے کیونکہ اس میں اختلاف ہے، پھر اگر نماز قصر پڑھنی ہے تو سفر کی وجہ سے یا مناسک حج کی بنا پر۔ ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ ایام حج (منیٰ، عرفات اور مزدلفہ) میں نماز قصر ہی پڑھی جائے، سفر حج کی وجہ سے یہ رعایت ہر حاجی کے لیے ہے، خواہ وہ مکہ مکرمہ ہی کا رہائشی ہو، البتہ حضرت عثمان ؓ نے خلافت کے 6 سال بعد کسی خاص عذر کی وجہ سے نماز پوری پڑھنی شروع کر دی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ایام منیٰ میں اگر اکیلے نماز پڑھتے تو دو رکعت، اگر امام کے ساتھ ادا کرتے تو چار رکعت پڑھتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔ (فتح الباري:2/728، وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1592(694))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1064
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1082
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1082
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1082
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ منیٰ میں دو دو رکعتیں پڑھیں اور حضرت عثمان ؓ کے ساتھ بھی شروع خلافت میں دو ہی پڑھیں، اس کے بعد انہوں نے پوری نماز پڑھنا شروع کر دی۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے منیٰ میں نماز کے متعلق واضح حکم بیان نہیں کیا کہ ان دنوں قصر پڑھنی ہے یا پوری ادا کرنی ہے کیونکہ اس میں اختلاف ہے، پھر اگر نماز قصر پڑھنی ہے تو سفر کی وجہ سے یا مناسک حج کی بنا پر۔ ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ ایام حج (منیٰ، عرفات اور مزدلفہ) میں نماز قصر ہی پڑھی جائے، سفر حج کی وجہ سے یہ رعایت ہر حاجی کے لیے ہے، خواہ وہ مکہ مکرمہ ہی کا رہائشی ہو، البتہ حضرت عثمان ؓ نے خلافت کے 6 سال بعد کسی خاص عذر کی وجہ سے نماز پوری پڑھنی شروع کر دی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ایام منیٰ میں اگر اکیلے نماز پڑھتے تو دو رکعت، اگر امام کے ساتھ ادا کرتے تو چار رکعت پڑھتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔ (فتح الباري:2/728، وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1592(694))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے عبید اللہ عمری سے بیان کیا، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن مسعود ؓ نے، کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ ابو بکر اور عمر ؓ کے ساتھ منیٰ میں در رکعت (یعنی چار رکعت والی نمازوں میں) قصر پڑھی۔ عثمان ؓ کے ساتھ بھی ان کے دور خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھی تھیں۔ لیکن بعد میں آپ ؓ نے پوری پڑھی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): I offered the prayer with the Prophet, Abu Bakr (RA) and 'Umar at Mina and it was of two Rakat. 'Uthman in the early days of his caliphate did the same, but later on he started praying the full prayer. ________