باب: حج کے موقعہ پر نبی کریمﷺ نے کتنے دن قیام کیا تھا ؟
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: How long did the Prophet (pbup) stay during the Hajj?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1085.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ذوالحجہ کی چار تاریخ کو صبح کے وقت مکہ مکرمہ میں پہنچے جبکہ وہ حج کا تلبیہ کہہ رہے تھے۔ نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے عمرے میں بدل لیں، ہاں! جو شخص ہدی (قربانی) ساتھ لایا ہے وہ اپنے حج کو فسخ نہ کرے۔ عطاء بن ابی رباح نے حضرت جابر ؓ سے بیان کرنے میں ابوالعالیہ کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی مکہ مکرمہ آمد کا ذکر ہے، منیٰ کی طرف روانگی کا بیان نہیں کیونکہ اس کے متعلق وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اس سے مراد اس مدت اقامت کو بیان کرنا ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر پورے جزم اور وثوق سے اختیار کیا اور وہ ہے آمد اور روانگی کا دن نکال کر تین دن اور تین راتیں، اس طرح کہ آپ چار ذوالحجہ کو مکہ آئے اور آٹھ ذوالحجہ کو منیٰ روانہ ہو گئے۔ اور کل بیس نمازیں بحالت اقامت مسجد حرام میں ادا کیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مکہ میں آمد اور مدینہ منورہ روانگی کا درمیانی عرصہ بیان کرنا ہے، جیسا کہ حضرت انس ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپ نے دس دن قیام فرمایا، یعنی چار ذوالحجہ کو آمد اور چودہ ذوالحجہ کو مدینہ روانگی ہوئی۔ (فتح الباري:730/2) امام بخاری ؒ نے حضرت عطاء کی متابعت کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1568)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1067
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1085
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1085
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1085
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ذوالحجہ کی چار تاریخ کو صبح کے وقت مکہ مکرمہ میں پہنچے جبکہ وہ حج کا تلبیہ کہہ رہے تھے۔ نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے عمرے میں بدل لیں، ہاں! جو شخص ہدی (قربانی) ساتھ لایا ہے وہ اپنے حج کو فسخ نہ کرے۔ عطاء بن ابی رباح نے حضرت جابر ؓ سے بیان کرنے میں ابوالعالیہ کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی مکہ مکرمہ آمد کا ذکر ہے، منیٰ کی طرف روانگی کا بیان نہیں کیونکہ اس کے متعلق وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اس سے مراد اس مدت اقامت کو بیان کرنا ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر پورے جزم اور وثوق سے اختیار کیا اور وہ ہے آمد اور روانگی کا دن نکال کر تین دن اور تین راتیں، اس طرح کہ آپ چار ذوالحجہ کو مکہ آئے اور آٹھ ذوالحجہ کو منیٰ روانہ ہو گئے۔ اور کل بیس نمازیں بحالت اقامت مسجد حرام میں ادا کیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مکہ میں آمد اور مدینہ منورہ روانگی کا درمیانی عرصہ بیان کرنا ہے، جیسا کہ حضرت انس ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپ نے دس دن قیام فرمایا، یعنی چار ذوالحجہ کو آمد اور چودہ ذوالحجہ کو مدینہ روانگی ہوئی۔ (فتح الباري:730/2) امام بخاری ؒ نے حضرت عطاء کی متابعت کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1568)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیا ن کیا کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ان سے ابوالعالیہ براء نے ان سے ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کو ساتھ لے کر تلبیہ کہتے ہوئے ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کو (مکہ میں) تشریف لائے پھر آپ نے فرمایا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے وہ بجائے حج کے عمرہ کی نیت کر لیں اور عمرہ سے فارغ ہو کر حلال ہوجائیں پھر حج کا احرام باندھیں۔ اس حدیث کی متابعت عطاء نے جابر سے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
کیونکہ آپ ﷺ چوتھی ذی الحجہ کو مکہ معظمہ پہنچے تھے اور چودھویں کو مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے تو مدت اقامت کل دس دن ہوئی اور مکہ میں صرف چار دن رہنا ہوا باقی ایام منیٰ وغیرہ میں صرف ہوئے اسی لیے امام شافعی ؒ نے کہا کہ جب مسافر کسی مقام میں چار دن سے زیادہ رہنے کی نیت کرے تو پوری نماز پڑھے چار دن تک قصر کرتا رہے اور امام احمد نے کہا اکیس نمازوں تک (مولانا وحید الزماں مرحوم) پچھلی روایت جس میں آپ کا قیام اکیس دن مذکور ہے اس میں یہ قیام فتح مکہ سے متعلق ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے مغازی میں دوسرے طریق سے اقامت کا مقام مکہ بیان فرمایا ہے جہاں آپ ﷺ نے انیس دن قیام فرمایا اورآپ ﷺ نماز قصرکرتے رہے معلوم ہوا کہ قصر کے لیے یہ آخری حد ہے اگر اس سے زیادہ ٹھہرنے کا فیصلہ ہو تو نماز پوری پڑھنی ہوگی اور اگر فیصلہ نہ کر سکے اور تردد میں آج کل آج کل کر تا رہ جائے تو وہ جب تک اس حالت میں ہے قصر کر سکتا ہے، جیسا کہ زاد المعاد میں علامہ ابن قیم ؒ نے بیان فرمایا :ومنھا أنه صلی اللہ علیه وسلم أقام بتبوك عشرین یوما یقصر الصلوة ولم یقل للأمة لا یقصر الرجل الصلوة إذا قام أکثر من ذلك ولکن أنفق إقامته ھذہ المدة وھذہ الإقامة في حالة السفر لا تخرج عن حکم السفر سواء طالت أو قصرت إذا کان غیر متوطن ولا عازم علی الإقامة بذلك الموضع۔یعنی رسول اللہ ﷺ تبوک میں بیس دن تک مقیم رہے اور نماز قصر فرماتے رہے اور آپ نے امت کے لیے نہیں فرمایا کہ امت میں سے اگر کسی کا اس سے بھی زیادہ کہیں ( حالت سفر میں ) اقامت کا موقعہ آجائے تو وہ قصر نہ کرے۔ ایسا آپ نے کہیں نہیں فرمایا پس جب کوئی شخص سفر میں کسی جگہ بہ حیثیت وطن کے نہ اقامت کرے اور نہ وہاں اقامت کا عزم ہو مگر آج کل میں تردد رہے تو اس کی مدت اقامت کم ہو یا زیادہ وہ بہر حال سفر کے حکم میں ہے اور نماز قصر کر سکتا ہے۔ حافظ نے کہا کہ بعض لوگوں نے احمد سے امام احمد بن حنبل کو سمجھا یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ امام احمد نے عبد اللہ بن مبارک سے نہیں سنا (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) and his companions reached Makkah in the morning of the 4th Dhul-Hijja reciting Talbiya (O Allah! We are obedient to your orders, we respond 4 to your call) . . . Intending to perform Hajj. The Prophet (ﷺ) ordered his companions to assume the lhram for Umra instead of Hajj, excepting those who had Hadi (sacrifice) with them. ________