Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: The length of the journey that makes it permissible to offer a shortened prayer?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
نبی کریمﷺنے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو بھی سفر کہا ہے اور عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن عباس ؓچار برد (تقریباً اڑتالیس میل کی مسافت) پر قصر کرتے اور روزہ بھی افطار کرتے تھے۔ چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں (اور ایک فرسخ میں تین میل)۔
1086.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی عورت محرم کے بغیر تین دن کا سفر نہ کرے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1068
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1086
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1086
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1086
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ اس مقدار سفر کو بیان کرنا چاہتے ہیں جس میں مسافر کو نماز قصر ادا کرنا جائز ہوتی ہے۔ اس مقدار کے متعلق علمائے سلف میں خاصا اختلاف ہے۔ امام ابن منذر نے تقریبا بیس اقوال کا حوالہ دیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک دن اور ایک رات کی مسافر ذکر کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک کم از کم مقدار سفر ایک دن اور ایک رات کی مسافت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو سفر کہا ہے جیسا کہ حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ (1088) میں ہے۔ حضرت ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی معلق روایت کو ابن منذر نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:2/781)
نبی کریمﷺنے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو بھی سفر کہا ہے اور عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن عباس ؓچار برد (تقریباً اڑتالیس میل کی مسافت) پر قصر کرتے اور روزہ بھی افطار کرتے تھے۔ چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں (اور ایک فرسخ میں تین میل)۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی عورت محرم کے بغیر تین دن کا سفر نہ کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺنے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو سفر کہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابن عباس ؓ چار برد کی مسافت پر نماز قصر پڑھتے تھے اور اس دوران روزہ نہیں رکھتے تھے۔ اور چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، انہوں نے ابو اسامہ سے، میں نے پوچھا کہ کیا آپ سے عبیداللہ عمری نے نافع سے یہ حدیث بیان کی تھی کہ ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا تھا کہ عورتیں تین دن کا سفر ذی رحم محرم کے بغیر نہ کریں (ابو اسامہ نے کہا ہاں)
حدیث حاشیہ:
محرم وہ جن سے عورت کے لیے نکاح حرام ہے اگر ان میں سے کوئی نہ ہو تو عورت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں۔ یہاں تین دن کی قید کا مطلب ہے کہ اس مدت پر لفظ کا اطلاق کیا گیا اور ایک دن اوررات کو بھی سفر کہا گیا ہے تقریبا اڑتالیس میل پر اکثر اتفاق ہے کما مر۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "A woman should not travel for more than three days except with a Dhi-Mahram." ________