Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: The length of the journey that makes it permissible to offer a shortened prayer?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
نبی کریمﷺنے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو بھی سفر کہا ہے اور عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن عباس ؓچار برد (تقریباً اڑتالیس میل کی مسافت) پر قصر کرتے اور روزہ بھی افطار کرتے تھے۔ چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں (اور ایک فرسخ میں تین میل)۔
1088.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو عورت اللہ پر ایمان اور روز قیامت پر یقین رکھتی ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ ایک دن رات کی مسافت اس حالت میں طے کرے کہ اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔‘‘ یحییٰ بن ابی کثیر، سہیل اور مالک نے مقبری سے روایت کرنے میں ابن ابی ذئب کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ قصر کے لیے مسافت کا کم از کم اتنا ہونا ضروری ہے جو ایک دن اور ایک رات میں طے ہو سکے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی صریح قولی روایت نہیں ملی جس سے نماز قصر کے لیے مسافت کی مقدار کو معین کیا جا سکتا ہو، البتہ حضرت انس ؓ جو سفروحضر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک خادم خاص کی حیثیت سے رہے ہیں، انہوں نے آپ ﷺ کے ایک فعل سے استنباط کیا ہے کہ کم از کم نو میل کی مسافت پر نماز قصر کی جا سکتی ہے، چنانچہ آپ کے شاگرد یحییٰ بن یزید نے نماز قصر کے لیے مسافت کی مقدار کے متعلق سوال کیا تو حضرت انس ؓ نے جواب دیا کہ جب رسول اللہ ﷺ تین میل یا تین فرہنگ کا سفر کرتے تو نماز قصر فرماتے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین وقصرھا، حدیث:1583(691)) روایت میں سفر کی تعیین کے متعلق تردد شعبہ راوی کو ہوا ہے۔ (2) واضح رہے کہ روایت میں تین میل کے بجائے تین فرسخ مراد لینا زیادہ قرین قیاس ہے۔ کیونکہ اس میں میل بھی آ جاتے ہیں، اس لیے کہ ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسافت اگر نو میل ہو تو اپنے شہر یا گاؤں کی حد سے نکل کر نماز قصر کی جا سکتی ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اتنی مسافت طے کرنے کے بعد قصر کا آغاز ہونا چاہیے۔ روایت میں انتہائے سفر کا بیان نہیں ہے اور روایت کا یہ مفہوم اس لیے درست نہیں کہ سائل نے حضرت انس ؓ سے جواز قصر کے لیے مسافت کے متعلق سوال کیا تھا اور اس کے سوال کے مطابق ہی اسے جواب دیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ مفروضہ قائم کرنا کہ واقعاتی طور پر رسول اللہ ﷺ کا صرف اتنی مسافت پر مشتمل سفر کرنا ثابت نہیں، اس کی حیثیت نکتہ آفرینی سے زیادہ نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے خادم خاص حضرت انس نے سائل کے سوال کو سمجھ کر اس کے مطابق جواب دیا ہے جو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔ (3) یحییٰ بن ابی کثیر کی متابعت کو امام احمد ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ سہیل کی روایت کو ابن خزیمہ نے اور امام مالک کی روایت کو امام مسلم نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:734/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1070
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1088
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1088
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1088
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ اس مقدار سفر کو بیان کرنا چاہتے ہیں جس میں مسافر کو نماز قصر ادا کرنا جائز ہوتی ہے۔ اس مقدار کے متعلق علمائے سلف میں خاصا اختلاف ہے۔ امام ابن منذر نے تقریبا بیس اقوال کا حوالہ دیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک دن اور ایک رات کی مسافر ذکر کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک کم از کم مقدار سفر ایک دن اور ایک رات کی مسافت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو سفر کہا ہے جیسا کہ حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ (1088) میں ہے۔ حضرت ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی معلق روایت کو ابن منذر نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:2/781)
نبی کریمﷺنے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو بھی سفر کہا ہے اور عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن عباس ؓچار برد (تقریباً اڑتالیس میل کی مسافت) پر قصر کرتے اور روزہ بھی افطار کرتے تھے۔ چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں (اور ایک فرسخ میں تین میل)۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو عورت اللہ پر ایمان اور روز قیامت پر یقین رکھتی ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ ایک دن رات کی مسافت اس حالت میں طے کرے کہ اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔‘‘ یحییٰ بن ابی کثیر، سہیل اور مالک نے مقبری سے روایت کرنے میں ابن ابی ذئب کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ قصر کے لیے مسافت کا کم از کم اتنا ہونا ضروری ہے جو ایک دن اور ایک رات میں طے ہو سکے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی صریح قولی روایت نہیں ملی جس سے نماز قصر کے لیے مسافت کی مقدار کو معین کیا جا سکتا ہو، البتہ حضرت انس ؓ جو سفروحضر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک خادم خاص کی حیثیت سے رہے ہیں، انہوں نے آپ ﷺ کے ایک فعل سے استنباط کیا ہے کہ کم از کم نو میل کی مسافت پر نماز قصر کی جا سکتی ہے، چنانچہ آپ کے شاگرد یحییٰ بن یزید نے نماز قصر کے لیے مسافت کی مقدار کے متعلق سوال کیا تو حضرت انس ؓ نے جواب دیا کہ جب رسول اللہ ﷺ تین میل یا تین فرہنگ کا سفر کرتے تو نماز قصر فرماتے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین وقصرھا، حدیث:1583(691)) روایت میں سفر کی تعیین کے متعلق تردد شعبہ راوی کو ہوا ہے۔ (2) واضح رہے کہ روایت میں تین میل کے بجائے تین فرسخ مراد لینا زیادہ قرین قیاس ہے۔ کیونکہ اس میں میل بھی آ جاتے ہیں، اس لیے کہ ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسافت اگر نو میل ہو تو اپنے شہر یا گاؤں کی حد سے نکل کر نماز قصر کی جا سکتی ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اتنی مسافت طے کرنے کے بعد قصر کا آغاز ہونا چاہیے۔ روایت میں انتہائے سفر کا بیان نہیں ہے اور روایت کا یہ مفہوم اس لیے درست نہیں کہ سائل نے حضرت انس ؓ سے جواز قصر کے لیے مسافت کے متعلق سوال کیا تھا اور اس کے سوال کے مطابق ہی اسے جواب دیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ مفروضہ قائم کرنا کہ واقعاتی طور پر رسول اللہ ﷺ کا صرف اتنی مسافت پر مشتمل سفر کرنا ثابت نہیں، اس کی حیثیت نکتہ آفرینی سے زیادہ نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے خادم خاص حضرت انس نے سائل کے سوال کو سمجھ کر اس کے مطابق جواب دیا ہے جو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔ (3) یحییٰ بن ابی کثیر کی متابعت کو امام احمد ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ سہیل کی روایت کو ابن خزیمہ نے اور امام مالک کی روایت کو امام مسلم نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:734/2)
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺنے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو سفر کہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابن عباس ؓ چار برد کی مسافت پر نماز قصر پڑھتے تھے اور اس دوران روزہ نہیں رکھتے تھے۔ اور چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے اپنے باپ سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی خاتون کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ ایک دن رات کا سفر بغیر کسی ذی رحم محرم کے کرے۔ اس روایت کی متابعت یحییٰ بن ابی کثیر، سہیل اور مالک نے مقبری سے کی۔ وہ اس روایت کو ابو ہریرہ ؓ سے بیان کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
عورت کے لیے پہلی احادیث میں تین دن کے سفر کی ممانعت وارد ہوئی ہے جب کہ اس کے ساتھ کوئی ذی محرم نہ ہو اور اس حدیث میں ایک دن اور ایک رات کی مدت کا ذکر آیا۔ دن سے حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد لفظ سفرکا کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ حد بتلانا مقصود ہے، یعنی ایک دن رات کی مدت سفر کوشرعی سفر کا ابتدائی حصہ اور تین دن کے سفر کو آخری حصہ قراردیا ہے۔ پھراس سے جس قدر بھی زیادہ ہو پہلے بتلایا جاچکا ہے کہ اہل حدیث کے ہاں قصر کرنا سنت ہے، فرض وا جب نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قصر اللہ کی طرف کا ایک صدقہ ہے جسے قبول کرنا ہی مناسب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "It is not permissible for a woman who believes in Allah and the Last Day to travel for one day and night except with a Mahram." ________