باب: نفل نماز سواری پر، اگر چہ سواری کا رخ کسی طرف ہو
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: To offer Nawafil on the back of animals)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1095.
حضرت نافع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنی سواری پر نماز پڑھتے اور وتر بھی اسی پر ادا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی ﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نفل نماز سواری پر ادا کر لیتے تھے، اس کے لیے استقبال قبلہ ضروری نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ رکوع و سجود کے لیے اشارہ کرتے تھے اور فرض نماز کے لیے ایسا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1087) ایک دوسری روایت میں ہے کہ رات کے وقت تہجد کے نوافل سواری پر ادا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1104) (2) حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی حدیث کے متعلق امام بخاری ؒ نے تصریح کی ہے کہ یہ واقعہ غزوۂ انمار کا ہے۔ مدینہ سے ادھر جاتے وقت قبلہ بائیں جانب پڑتا ہے کیونکہ انمار کا مقام مدینہ سے بجانب مشرق واقع ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق بعض روایات میں ہے کہ آپ نماز وتر کے لیے سواری سے اترتے اور انہیں زمین پر ادا کرتے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:351 ومسند أحمد:4/2) اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے نماز وتر کو دونوں طرح سے ادا کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جب آپ عجلت میں ہوتے تو سواری پر وتر پڑھ لیتے اور جب جلدی نہ ہوتی تو زمین پر ادا کرتے۔ (فتح الباري:741/2)واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1076
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1095
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1095
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1095
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
حضرت نافع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنی سواری پر نماز پڑھتے اور وتر بھی اسی پر ادا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی ﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نفل نماز سواری پر ادا کر لیتے تھے، اس کے لیے استقبال قبلہ ضروری نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ رکوع و سجود کے لیے اشارہ کرتے تھے اور فرض نماز کے لیے ایسا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1087) ایک دوسری روایت میں ہے کہ رات کے وقت تہجد کے نوافل سواری پر ادا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1104) (2) حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی حدیث کے متعلق امام بخاری ؒ نے تصریح کی ہے کہ یہ واقعہ غزوۂ انمار کا ہے۔ مدینہ سے ادھر جاتے وقت قبلہ بائیں جانب پڑتا ہے کیونکہ انمار کا مقام مدینہ سے بجانب مشرق واقع ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق بعض روایات میں ہے کہ آپ نماز وتر کے لیے سواری سے اترتے اور انہیں زمین پر ادا کرتے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:351 ومسند أحمد:4/2) اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے نماز وتر کو دونوں طرح سے ادا کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جب آپ عجلت میں ہوتے تو سواری پر وتر پڑھ لیتے اور جب جلدی نہ ہوتی تو زمین پر ادا کرتے۔ (فتح الباري:741/2)واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ حضرت ابن عمر ؓ نفل نماز سواری پر پڑھتے تھے۔ اسی طرح وتر بھی۔ اور فرماتے کہ نبی کریم ﷺ بھی ایسا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA): Ibn 'Umar (RA) (while on a journey) used to offer the prayer and the Witr on his mount (Rahila). He said that the Prophet (ﷺ) used to do so. ________