باب: فرض نمازوں کے بعد اور اول کی سنتوں کے علاوہ اور دوسرے نفل سفر میں پڑھنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: Whoever offered Nawafil not after the compulsory Salat but before it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ نے سفر میں فجر کی سنتوں کو پڑھا ہے۔
1105.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سر مبارک کے اشارے سے اپنی سواری پر نوافل پڑھا کرتے تھے، جدھر بھی اس کا منہ ہو جاتا۔ حضرت ابن عمر ؓ بھی اسی طرح کرتے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے واضح کیا ہے کہ دوران سفر فرض نماز کے بعد سنن راتبہ کے سوا دیگر نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (2) احادیث پیش کرنے سے مقصود اس قسم کے نوافل کی مختلف انواع بیان کرنا ہے، چنانچہ پہلی معلق روایت میں نماز سے پہلے سنت فجر پڑھنا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری حدیث میں ان نوافل کا بیان ہے جن کی ادائیگی کے لیے مخصوص وقت ہے جیسا کہ صلاۃ ضحیٰ۔ تیسری حدیث میں نماز تہجد اور چوتھی میں مطلق نوافل کا بیان ہے۔ آخری حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے عمل کے بعد حضرت ابن عمر ؓ کا معمول بیان کیا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ دوران سفر میں نوافل پڑھنے مشروع ہیں ان کا نسخ یا معارض ثابت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ (فتح الباري:738/2) (3) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا عمل متصل سند کے ساتھ امام بخاری ؒ نے پہلے بیان کیا ہے کہ آپ دوران سفر میں اپنی سواری پر نماز تہجد پڑھتے تھے۔ سواری کا جس طرف بھی منہ ہو جاتا اس کی پروا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1098)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1084
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1105
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1105
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1105
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
تمہید باب
دوران سفر نوافل پڑھنے کے متعلق تین اقوال ہیں: (1) مطلق طور پر نفل پڑھنے منع ہیں۔ (2) مطلق طور پر نفل پڑھے جا سکتے ہیں۔ (3) سنن راتبہ منع ہیں، البتہ مطلق نوافل ادا کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا موقف ہے، چنانچہ مجاہد کہتے ہیں: میں مدینہ سے مکہ تک حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ہم سفر رہا ہوں، آپ اپنی سواری پر نفل پڑھتے جدھر کو بھی اس کا منہ ہوتا، البتہ فرض نماز سواری سے نیچے اتر کر ادا کرتے۔ (فتح الباری:2/747) دوران سفر فجر کی دو سنت پڑھنے کے متعلق احادیث میں وضاحت ہے، چنانچہ دوران سفر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گہری نیند آ گئی اور دن چڑھے فجر کی نماز ادا کی ۔۔ تو بروایت حضرت ابو قتادہ، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہم آپ نے نماز فجر سے پہلے دو سنتیں بھی ادا کیں۔ دوران سفر ظہر سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے، چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تقریبا اٹھارہ سفر کیے ہیں آپ سورج ڈھلنے کے بعد نماز ظہر سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے۔ (سنن ابی داود،صلاۃ السفر،حدیث:1222) بعض علماء کا خیال ہے کہ مذکورہ دو رکعت ظہر کی دو سنت نہیں بلکہ یہ سنت زوال ہیں۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباری:2/747) الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کی سنن راتبہ نہیں پڑھیں، ہاں! دیگر قسم کے نوافل، اشراق اور تہجد وغیرہ پڑھنا منقول ہے۔ اسی طرح نماز فجر کی دو سنتیں اور وتر پڑھنا بھی ثابت ہے۔
اور نبی کریم ﷺ نے سفر میں فجر کی سنتوں کو پڑھا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سر مبارک کے اشارے سے اپنی سواری پر نوافل پڑھا کرتے تھے، جدھر بھی اس کا منہ ہو جاتا۔ حضرت ابن عمر ؓ بھی اسی طرح کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے واضح کیا ہے کہ دوران سفر فرض نماز کے بعد سنن راتبہ کے سوا دیگر نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (2) احادیث پیش کرنے سے مقصود اس قسم کے نوافل کی مختلف انواع بیان کرنا ہے، چنانچہ پہلی معلق روایت میں نماز سے پہلے سنت فجر پڑھنا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری حدیث میں ان نوافل کا بیان ہے جن کی ادائیگی کے لیے مخصوص وقت ہے جیسا کہ صلاۃ ضحیٰ۔ تیسری حدیث میں نماز تہجد اور چوتھی میں مطلق نوافل کا بیان ہے۔ آخری حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے عمل کے بعد حضرت ابن عمر ؓ کا معمول بیان کیا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ دوران سفر میں نوافل پڑھنے مشروع ہیں ان کا نسخ یا معارض ثابت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ (فتح الباري:738/2) (3) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا عمل متصل سند کے ساتھ امام بخاری ؒ نے پہلے بیان کیا ہے کہ آپ دوران سفر میں اپنی سواری پر نماز تہجد پڑھتے تھے۔ سواری کا جس طرف بھی منہ ہو جاتا اس کی پروا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1098)
ترجمۃ الباب:
نبی اکرم ﷺنے دوران سفر فجر کی سنتیں ادا کیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے اپنے باپ عبد اللہ بن عمر ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی اونٹنی کی پیٹھ پر خواہ اس کا منہ کسی طرف ہو تا نفل نماز سر کے اشاروں سے پڑھتے تھے۔ عبد اللہ بن عمر ؓ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
مطلب امام بخاری ؒ کا یہ ہے کہ سفرمیں آنحضرت ﷺ نے فرض نمازوں کے اول اور بعد کی سنن راتبہ نہیں پڑھی ہیں ہاں اور قسم کے نوافل جیسے اشراق وغیرہ سفر میں پڑھنا منقول ہے اور فجر کی سنتوں کا سفرمیں ادا کرنا بھی ثابت ہے۔ قال ابن القیم في الھدي وکان من ھدیه صلی اللہ علیه وسلم في سفرہ الاقتصار علی الفرض ولم یحفظ عنه أنه صلی اللہ علیه وسلم صلی سنة الصلاة قبلھا ولا بعدھا إلا ما کان من سنة الوتر والفجر فإنه لم یکن یدعھا حضرا ولا سفرا انتھیٰ۔(نیل الأوطار)یعنی علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور کتاب زاد المعاد میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت مبارک سے یہ بھی ہے کہ حالت سفر میں آپ صرف فرض کی قصر رکعتوں پر اکتفا کرتے تھے اور آپ سے ثابت نہیں کہ آپ نے سفر میں وتر اور فجر کی سنتوں کے سوا اور کوئی نماز ادا کی ہو۔ آپ ان ہر دوکو سفر اور حضر میں برابر پڑھا کر تے تھے۔ پھر علامہ ابن قیم ؒ نے ان روایات پر روشنی ڈالی ہے جن سے آنحضرت ﷺ کا حالت سفر میں نماز نوافل ادا کرنا ثابت ہوتاہے۔ وقد سئل الإما م أحمد عن التطوع في السفر فقال أرجو أن لا یکون بالتطوع في السفر بأس۔یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سفر میں نوافل کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ سفر میں نوافل ادا کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے مگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا بہتر اور مقدم ہے۔ پس ہر دو امور ثابت ہوئے کہ ترک میں بھی کوئی برائی نہیں اور ادائیگی میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ وقال اللہ تعالی ماجعل علیکم في الدین من حرج والحمد للہ علی نعمائه الکاملة۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim bin Abdullah (RA): Ibn 'Umar (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) used to pray the Nawafil on the back of his Mount (carriage) by signs facing any direction." Ibn 'Umar (RA) used to do the same. ________